نمونہ کلام فیض احمد فیض
وکیپیڈیا سے
فہرست |
[ترمیم] فلسطینی بچے کے لیے لوری
مت رو بچے
رو رو کے ابھی
تیری امی کی آنکھ لگی ہے
مت رو بچے
کچھ ہی پہلے
تیرے ابا نے
اپنے غم سے رخصت لی ہے
مت رو بچے
تیرا بھائی
اپنے خواب کی تتلی پیچھے
دور کہیں پردیس گیا ہے
مت رو بچے
تیری باجی کا
ڈولا پرائے دیس گیا ہے
مت رو بچے
تیرے آنگن میں
مردہ سورج نہلا کے گئے ہیں
چندر ما دفنا کے گئے ہیں
مت رو بچے
امی، ابا، باجی، بھائی
چاند اور سورج
تو گر روئے گا تو یہ سب
اور بھی تجھ کو رلوائیں گے
تو مسکائے گا تو شاید
سارے اک دن بھیس بدل کر
تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے
۞ فیض احمد فیض (بیروت
[ترمیم] ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اک دن جیتیں گے
بلآخر اک دن جیتیں گے
کیا خوف زیلغارِ اعداء
ہء سینہ سپر ہر غازی کا
کیا خوف زیورشِ جیش قضا
صف بستہ پہں ارواح الشہداء
ڈر کاہے کا؟
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اک دن جیتیں گے
قد جاء الحق و زہق الباطل
فرمودہ ربِ اکبر
ہے جنت اپنے پائوں تلے
اور سایہ رحمت سر پہ پے
پھر کیا ڈر ہے؟
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اک دن جیتیں گے
بلآخر اک دن جیتیں گے
(بیروت۔ 15 جون 1983ء)
[ترمیم] وا میرے وطن
وا میرے وطن! وا میرے وطن! وا میرے وطن!
مرے سر پر وہ ٹوپی نہ رہی
جو تیرے دیس سے لایا تھا
پاؤں میں وہ اب جوتے بھی نہیں
واقف تھے جو تیری راہوں سے
مرا آخری کرتا چاک ہوا
ترے شہر میں جو سلوایا تھا
اب تیری جھلک
بس اڑتی ہوئی رنگت ہے میرے بالوں کی
یا جُھریاں میرے ماتھے پر
یا میرا ٹوٹا ہوا دل ہے
وا میرے وطن! وا میرے وطن! وا میرے وطن!
[ترمیم] مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم رہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا عالم میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، فقط میں نے چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریخ بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن، مگر کیا کیجئے
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
[ترمیم] بہار آئی تو جیسے اک بار۔۔۔۔
بہار آئی تو جیسے اک بار
لوٹ آئے ہیں پھر ادم سے
وہ خواب سارے، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جومٹ کر ہر با ر پھر جیئے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں
جوتیرے عُشاق کا لہو ہیں
ابل پڑے ہیں عذاب سارے
ملالِ احوالِ دوستاں بھی
خُمارِ آغوشِ مہوِشاں بھی
غُبارِ خاطر کے باب سارے
تیرے ہمارے
سوال سارے، جواب سارے
بہار آئی تو کھل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے