اشرف علی تھانوی
وکیپیڈیا سے
پیدائش: 1863ء
وفات: 1943ء
عالم دین ۔ حکیم الامت ، مجدد الملت۔ تھانہ بھون ضلع مظفر نگر (بھارت ) میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام عبد الحق فاروقی تھا۔ آباؤاجداد تھانیسر ضلع کرنال سے نقل مکانی کرکے یہاں اقامت گزین ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم میرٹھ میں پائی۔ حافظ حسین علی مرحوم سے کلام پاک حفظ کیا۔ اس کے بعد تھانہ بھون آکر مولانا فتح محمد مرحوم سے عربی کی ابتدائی اور فارسی کی متعدد کتابیں پڑھیں۔ بعد ازاں دیوبند پہنچ کر باقی نصاب کی تکمیل کی۔1884 میں دیوبند سے فارغ التحصیل ہو کر کانپور کے مدرسہ فیض عام میں تدریس کا کام شروع کیا اور پھر وہیں مدرسہ جامع العلوم قائم کیا۔۔ دو مرتبہ حج بیت اللہ شریف سے مشرف ہوے اور وہیں پہلی مرتبہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر کے ہاتھ پر بیعت کی اور انھی کے حکم سے کانپور میں قیام ترک کرکے تھان بھون میں مستقل سکونت اختیار کی اور آخر عمر تک یہیں درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ ہندوستان کے ہر گوشے سے لوگ پروانہ وار آپ کی حدمت میں حاضر ہوتے اور اس چشمہ ہدایت سے فیض حاصل کرتے۔لوگوں کی آمد کا یہ عالم تھا کہ حکومت نے قصبہ تھانہ بھون کے لیے ایک مستقل ریلوے اسٹیشن بنا دیا۔مولانا کو حکیم الامت اور مجدد الملت کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔آپ کے علمی و دینی فیوض و برکات متنوع ہیں۔ آپ قرآن کریم کے مترجم و مفسر تھے، مجدد تھے،علوم و حکمت کے شارع تھے، مصلح امت تھے، محدت، فقیہ و خطیب تھے، عظیم صوفی اور شریعت و طریقت کے مجادلہ کا خاتمہ کرنے والے تھے۔ آپ کی تصانیف کی تعداد آٹھ سو کے قریب ہے۔ اور یہ تصانیف اپنی مخصوص نوعیت کے اعتبار سے اردو کے اسلامی ادب میں اپنا جواب نہیں رکھتیں۔ 1939 میں ان کے ایک خادم مولوی عبد الحق نے ان کی تصانیف کی ایک فہرست شائع کی جو بڑی تقطیع کے 86 صفحات کو محیط ہے ۔ ان تصانیف میں (بہشتی زیور) نے قبول عام حاصل کیا۔ لیکن آپ کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر (بارہ جلدوں میں ) ہے۔جو پہلی بار 1934 میں شائع ہوئی اور اب تک اس کے متعدد اڈیشن شائے ہو چکے ہیں۔