افتخار جالب

وکیپیڈیا سے

افتخار جالب
افتخار جالب

وفات : 66 سال کی عمر میں 2005ء

پس دیوار پھول کھلتا ہے
جو ہوسکے تو دل کی دھڑکنوں میں ڈبو دو
یہ نامرادی کی خانہ خراب سی خوشبو ـ امڈی آتی ہے ، روکو
(نظم „ہولناک بشارت„)


ساٹھ کی دہائی میں نئی نظم اور اردو زبان میں لسانی تشکیلات کی تحریک کے بانی شاعر اور نقاد۔وہ ایک ٹریڈ یونین کے سرگرم رکن بھی رہے ـ ستر کی دہائی کے آخر میں بنکوں میں ہڑتال کرانے پر اُنہیں کچھ عرصہ کے لئے ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے اور بعد میں عدالت کے حکم سے نوکری پر بحال ہوئے ـ

جالب نے ’نئی نظم‘ کے عُنوان سے مضامین کا ایک مجموعہ شائع کیا جس میں ان کے علاوہ صفدر میر ، ظہیر کاشمیری ، جیلانی کامران اور انیسں ناگی کے مضامین شامل تھے ـ

افتخار جالب کی بنائی ہوئی منفرد زبان صحافت کی بیانیہ زبان اور روایتی کلاسیکی اور رومانوی زبانوں سے مختلف ہے ـ نقاد قاضی جاوید کا کہنا ہے کہ جالب نے ادب کی لسانی بنیادوں کو اہمیت دی اور یہ تصور پیش کیا کہ ادب اور شاعری زبان سازی کے عمل سے وجود میں آتی ہے ـ

افتخار جالب کی نظمیں پُرسکون جذبات کی نظمیں نہیں ہیں بلکہ خیالوں ، حقیقتوں اور خوابوں کے کار زار کی عکاس ہیں جن میں پیچیدہ استعاروں کے ذریعے ایک بحرانی صورتحال کو بیان کیا گیا ہے ـ

درون آدم کی راستی احتجاج کرتی ہے
ہمیں نہیں چاہیے ، خدارا ، ہمیں نہیں چاہیے
ہمیں مکمل سکوت دے دو
ہمیں جہنم کی سختیوں سے رہائی بخشو
( نظم ’وقتا عذاب النار‘)

جالب کی شاعری کی پہلی کتاب ’مآخذ‘ ان کی شہرت کی وجہ بنی ـ اس میں ان کی طویل نظم ’قدیم بنجر‘ شامل ہے جو عصری ماحول میں فرد اور معاشرے سے بحران کی تفتیش کرتی ہے ـ یہ نظم روایتی شاعری کے انداز سے ہٹ کر مصرعوں کی تشکیل کے ایک نۓ انداز میں انسان کے وجود کا اظہار کرتی ہے ـ

ان کی نظموں کے موضوعات متنوع ہیں جن میں سڑکوں پر ہجوم کے مسائل ، اپنے میں محو فکر فرد ،فرد کی بیگانگی ، گھریلو معاملات ، تجارتی مراکز میں ہونے والے جرائم اور سیاسی معاملات شامل ہیں ـ ان کے نزدیک انفرادی آزادی ہو یا کشمیر اور فلسطین کے عوام کے مسائل یہ سب علیحدہ علیحدہ خانوں میں بٹے ہوئے مسائل نہیں ، ایک کُل کا حصہ ہیں ـ

گھبرائیو نہیں ، قہر اٹھا ہے تو خوشیوں کو بھی بانٹیں گے ، ذرا ہاتھ کُھلے رکھنا ، حقیقت بھرے خوابوں کی خبر آئے گی ، یلغار کی صورت (نظم ’کشمیر کے حوالے سے‘)

مآخذ کے بعد افتخار جالب کی شاعری میں تبدیلی آئی اور انھوں نے سیدھے سادے اسلوب میں منظم جذبات کی شاعری بھی کی اور شاعرانہ تخیل کے جمالیاتی اختصار سے بھی کام لیا ـ نقاد آزاد کوثری کا کہنا ہے ستر کی دہائی میں افتخار جالب مشہور عوامی شاعر حبیب جالب کے انقلابی نظریہ سے متاثر ہوئے اور اس کی پیروی کرنے لگے تھے ـ

زبان خشک ہوئی ، نطق گلوگیر ہے
پابند ہے ، آواز
پابجولاں ہے ، شعاعوں میں بندھے سائے
سلاخوں سے گزرتے ہیں
(نظم ’معنی کا خمیازہ تشدد کا صلہ ، واللہ‘)

افتخار جالب کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ شاعروں کی ایک پوری نسل ان سے متاثر تھی ـ جیلانی کامران ، تبسم کاشمیری ، ظفر اقبال ، انیس ناگی اور کئی دوسرے شاعر اس قبیلہ میں شامل ہیں ـ لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔