ابو رافع رضی اللہ عنہ
وکیپیڈیا سے
[نجوم ہدایت] حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ
مولانا شفیع اللہ مد ظله
ان کی کوئی حیثیت نہ تھی، غلام مملوک تھے اور ہر کسی سے ملاقات کی غلاموں کو اجازت ہوتی ہے نہ ضرورت، ایسے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی ملاقات کا کوئی خاص امکان نہ تھا، لیکن اللہ تعالٰی کی ذات ہے جو ایسی بات پیدا کردیتی ہے جس کا انسان کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالٰی نے ہی قریش کا وہ پیغام ان کے سپرد کروایا جس کی رسانی کے لۓ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوۓ۔ کفار قریش کا ان کو در نبوت میں بھیجنا ان کے لۓ سعادت کا قرعۂ فال ثابت ہوا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ تاباں دیکھا ہی تھا کہ دل میں موجود فطری سلامتی امڈ آئی اور اسلام کا داعیہ دل میں پیدا ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: "یا رسول اللہ! اب میں کفار کی طرف واپس نہیں جانا چاہتا، آپ ہی کی خدمت اقدس میں اسلام قبول کرکے رہنا پسند کرنا ہوں"۔ مگر آحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ امین ووفادار ہیں جو ذرا ذرا سی باتوں میں بھی وفاداری کا دامن نہ چھوڑا کرتے تھے۔ فرمایا کہ قاصد کو نہیں روکتا، اس وقت تم لوٹ جاؤ، اگر یہی خیال برقرار رہے تو پھر آجانا۔
ان کے دل میں ایک حقیقت نے گھر کرلیا تھا، وہ اسے دھو نہیں سکتے تھے، بعد میں کسی وقت آکر مشرف باسلام ہوۓ، لیکن اسلام کو ظاہر کرنا اس وقت آزاد لوگوں کے لۓ بھی آسان نہ تھا پھر یہ تو غلام تھے۔ اس وقت قریش ہر اس شخص کی ایذا کے درپے تھے ذرا سا تعلق بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگیا ہو اگرچہ اس شخص کا تعلق ان تکلیف پہنچانے والوں سے کچھ بھی نہ ہو پھر اگر وہ شخص اس معاشرہ میں غلام ہوتا تو اس کا تو کوئی پرسان حال نہ ہوتا تھا، اس کو ایذا دینے میں ذرا نہ چوکتے تھے۔ اس لۓ انہوں نے اپنے ایمان کو چھپا کر رکھا اور اپنے آقا حضرت عباس کی خدمت میں مصروف رہے لیکن پھر بھی انہیں اپنے ایمان کی بدولت بعض مسائل جھیلنے پڑے۔ یہ ان کا فطری تعلق اور قلبی جذبہ کا نتیجہ ہی ہوگا کہ حضرت عباس جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوۓ تھے انہوں نے یہ غلام آحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کردیا اور پھر جس وقت حضرت عباس رضی اللہ عنہ مسلمان ہوۓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خوشی میں انہیں آزاد کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد تو فرما دیا مگر ان کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو محبت تھی، اس محبت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دور نہیں ہونے دیا چنانچہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ان کو اپنے خاندان میں شامل فرما لیا تھا، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "مولى القوم من أنفسهم" کہ آدمی کا آزاد کردہ غلام اس کے خاندان میں سے ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شادی بھی اپنی آزاد کردہ باندی حضرت سلمٰی رضی اللہ عنہ سے کرادی۔
کسی وجہ سے غزوہ بدر تک مکہ مکرمہ میں رہے، اس کے بعد ہجرت کی اور پھر سفر وحضر میں آحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ غزوہ احد اور اس کے بعد والے غزوات میں برابر شریک ہوتے رہے، بعض سرایا میں بھی شامل رہے۔ ہر وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بناء پر اللہ تعالٰی نے ان کو علوم کا وافر حصہ عطا فرمایا تھا جس کی وجہ سے ان سے فیضیاب ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، بہت سے صحابہ کرام تک ان سے مرجعت کرتے تھے۔ غرض یہ کہ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ اگرچہ غلاموں میں سے تھے مگر جب انہوں نے اپنے دل کو کفر وشرک سے آزاد کیا اور محبت نبی سے اپنے دل کو معمور کیا تو مرجع خلائق بن گۓ۔
جی ہاں! یہ حضرت ابو رافع جن کے نام میں اختلاف ہے، کسی نے اسلم کسی نے اور کچھ کہا ہے، ان کی زندگی میں ہمارے لۓ بہت بڑا سبق پنہاں ہے کہ وہ غلام، بے یارومددگار اور نام ونسب کے بغیر دین وعلم کی اتنی خدمت کرگۓ جن پر آزادوں کی آزادیاں قربان کی جاسکتی ہیں۔ اللہ تعالٰی ہم کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ اللہ تعالٰی کی ان پر ہزاروں رحمتیں نازل ہوں۔