اسلامی تہذیب کے عالمی اثرات
وکیپیڈیا سے
اسلامی تہذیب کے عالمی اثرات
عالمی تہذیب :
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا میں صرف ایک ہی تہذیب ہے جس نے دنیا کی تمام تہذہبوں پر اپنا خوشگوار اثر چھوڑا ہے۔ ان کے شعبہ ہائے زندگی میں اسلامی تہذیب کے ابدی اور فطری اصول کار فرما نظر آتے ہیں۔ اسلامی تہذیب قومی، ملکی یا نسلی تہذیب نہیں بلکہ بین القوامی اور بین الملکی تہذیب ہے۔ ہر وہ شخص جو توحید، رسالت اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسلام کے قصر قومیت میں داخل ہو سکتا ہے۔ اسلامی تاریخ کے مطالعہ کے دوران یہ عجب منظر دکھائی دیتا ہے کہ مختلف نسلوں اور قوموں کے فرزند اسلام کا پرچم اٹھائے فاتحانہ انداز میں قدم بڑھائے چلے جاتے ہیں، ہاشمی، اموی، عباسی، سلجوقی، ترکان، عثمانی، ال بویہہ، افغان، مغل اور نہ جانے کتنے خانوادے، اسلامی تہذیب و تمدن کی پاسبانی کا فرض انجام دیتے رہے ایک قوم تھک ہار جاتی ہے تو دوسری قوم آگے بڑھتی ہے اور اسلامی تہذیب کی مشعل درخشاں کو تھام لتی ہے دنیا کی دوسری تہذیبیں صرف ایک قوم یا ایک نسل کے سپوتوں کے کارناموں پر فخر کر سکتی ہیں لیکن اسلامی تہذیب ان گنت قوموں اور نسلوں کے ان تمام مشاہیر پر فخر کر سکتی ہے جنہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اسلامی تہذیب کا عالی شان محل تعمیر کرنے کی خدمت انجام دی ہو۔ امام بخاری، امام جعفر صادق، امام ابو حنیفہ، خلیل، سیبونہ، الکندی، فارابی، ابن سینا، ابن خلدون، امام غزالی، ابن تیمیہ، رومی، سعدی، شیخ احمد سر ہندی اور شاہ ولی اللہ کتنی مختلف قوموں اور نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور سب اسلام کے مایہ ناز فرزند کہلاتے ہیں۔
عالمگیر اثرات:
مشرقی ملکوں پر بہت سی قوموں نے تسلط و اقتدار حاصل کیا، ایران ، یونان ، اور روم نے مختلف زمانوں میں ان پر حکومت کی۔ مگر ان ملکوں پر ان کی تہذیبی اثر بہت کم پڑا۔ ان میں وہ نہ اپنا مذہب پھیلا سکے نہ اپنی زبان اور اپنے علوم فنون و صنعت کو فروغ دے سکے۔ مصر بطلیمو سیون اور رومیوں کے زمانہ میں نہ صرف اپنے مذہب پر قائم رہا بلکہ خود فاتحین نے مفتوحہ قوموں کا مذہب اور طرز تعمیر اختیار کر لیا چنانچہ ان دونوں خاندانوں نے جو عمارتیں تعمیر کیں، وہ فراعنہ کے طرز کی تھیں لیکن جو مقصد یونانی، ایرانی اور رومی مصر میں حاصل نہ کر سکے وہ عربوں نے بہت جلد اور بغیر کسی جبروا کراہ کے حاصل کر لیا۔ مصر جس کے لئے کسی غیر قوم کے خیالات قبول کرنا بہت دشوار تھا‘ اس نے ایک صدی کے اندر اپنے سات ہزار سال پرانے تمدن کو چھوڑ کر ایک نیا مذہب اور نئی زبان اختیار کر لی۔جو انقلابات کے باوجود ان تک قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے افریقہ کے ملکوں اور شام و ایران پر بھی اثر ڈالا۔ ان سب میں تیزی کے ساتھ اسلام پھیل گیا۔ بلکہ جن ملکوں سے وہ گزر گئے مثلاً چین تک میں جہاں ان کی حکومت کبھی قائم نہیں ہوئی اور عرب محض تاجر کی حیثیت سے آتے جاتے تھے۔ اسلام پھیل گیا۔ تاریخ عالم میں مفتوح قوموں پر کسی فاتح قوم کے اثرات کی ایسی مثال نہیں ملتی ان تمام قوموں نے جن کا عربوں سے صرف چند ہی دنوں کے لیے واسطہ رہا ان کا تمدن قبول کر لیا بلکہ بعض فاتح قوموں تک نے مثلاً ترک اور مغل وغیرہ جنہوں نے مسلمانوں کو فتح کرنے کے بعد نہ صرف ان کا مذہب اور تمدن اختیار کر لیا بلکہ اس کے بہت بڑے حامی و مبلغ بن گئے۔ علامہ اقبال نے اس شعر میں اسی طرف اشارہ کیا تھا۔
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
اور آج بھی جب کہ صدیوں سے عربی تمدن کی روح مر چکی ہے بحر اٹلانٹک سے لے کر دریائے سندھ تک اور بحر متوسط سے لے کر افریقہ کے ریگستان تک ایک مذہب اور ایک زبان جاری ہے اور وہ پیغمبر اسلام کا مذہب اور ان کی زبان ہے۔
اسلامی تہذیب کے اس درخشاں پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ویلڈ لکھتا ہے۔
" مسلمانوں میں نسلی شعور کا خاتمہ اسلام کے غیر معمولی کارناموں میں سے تھے"
اور فلپ حتی رقم طراز ہے۔
" دنیا کے تمام مذاہب میں قومیت کی دیواریں گرانے میں اور اسلام کو سب سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔"