ایران
وکیپیڈیا سے
|
|||||
شعار: استقلال، آزادی، جمہورئ اسلامی | |||||
ترانہ: سرود ملی ایران | |||||
دارالحکومت | تہران |
||||
عظیم ترین شہر | تہران | ||||
دفتری زبان(یں) | فارسی | ||||
نظام حکومت
رہبر معظم
صدر |
اسلامی جمہوریہ آیت اللہ علی خامنہ ای محمود احمدی نژاد |
||||
' انقلاب اسلامی |
11 فروری 1979ء |
||||
رقبہ - کل - پانی (%) |
1,648,195 مربع کلومیٹر (18 واں) 636,372 مربع میل 0.7 |
||||
آبادی - تخمینۂ 2006 - کثافت |
70,049,262 (18 واں) 42 فی مربع کلومیٹر(158 واں) 109 فی مربع میل |
||||
جی۔ ڈی۔ پی۔ (پی۔ پی۔ پی۔) - مجموعی - فی کس |
2005 تخمینہ 569.9 ارب ڈالر (19 واں) 8,400 ڈالر (71 واں) |
||||
ایچ۔ ڈی۔ آئی۔ (2006) | 0.746 (96 واں) – متوسط | ||||
سکہ | ایرانی ریال (IRR ) |
||||
منطقۂ وقت - گرما (ڈی۔ ایس۔ ٹی۔) |
(یو۔ ٹی۔ سی۔ +3:30) غیر مستعمل (یو۔ ٹی۔ سی۔ +3:30) |
||||
انٹرنیٹ ٹی۔ ایل۔ ڈی۔ | .ir | ||||
کالنگ کوڈ | +98 |
اسلامی جمہوریہ ایران (عرف عام: ایران، سابق نام: فارس) جنوب مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے جو مشرق وسطی میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان اور مغرب میں ترکی اور عراق سے ملتی ہیں۔ مزید برآں خلیج فارس بھی اس سے ملحق ہے۔ شیعہ اسلام ملک کا سرکاری مذہب اور فارسی قومی زبان ہے۔
ایران دنیاکی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ ملک کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ یورپ اور ایشیا کے وسط میں ہونے کے باعث اس کی تاریخی اہمیت ہے۔ ایران اقوام متحدہ، غیر وابستہ ممالک کی تحریک (نام)، اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) اور تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) کا بانی رکن ہے۔ تیل کے عظیم ذخائر کی بدولت بین الاقوامی سیاست میں ملک اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ لفظ ایران کا مطلب آریاؤں کی سرزمین ہے۔
فہرست |
[ترمیم] جغرافیہ
ایران مشرق وسطی میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں آرمینیا، آذربائیجان، ترکمانستان اور بحیرہ قزوین، مشرق میں افغانستان اور پاکستان، جنوب میں خلیج فارس اور خلیج اومان جبکہ مغرب میں عراق اور ترکی واقع ہیں۔ ملک کا وسطی و مشرقی علاقہ وسیع بے آب و گیاہ صحراؤں پر مشتمل ہے جن میں کہیں کہیں نخلستان ہیں۔ مغرب میں ترکی اور عراق کے ساتھ سرحدوں پر پہاڑی سلسلے ہیں۔ شمال میں بھی بحیرہ قزوین کے ارد گرد زرخیز پٹی کے ساتھ ساتھ کوہ البرس واقع ہیں۔
[ترمیم] سیاست
موجودہ آئین 1979ء کے انقلاب کے بعد منظور کیا گیا جس کے مطابق ایران کو ایک اسلامی جمہوریہ اور اسلامی تعلیمات کو تمام سیاسی، سماجی اور معاشی تعلقات کی بنیاد قرار دیا گیا۔ مجموعی اختیارات رہبر معظم (سپریم لیڈر) کے پاس ہوتے ہیں۔ آجکل آیت اللہ علی خامنہ ای رہبر معظم ہیں۔ رہبر معظم کا انتخاب ماہرین کی ایک مجلس (مجلس خبرگان) کرتی ہے جس میں پورے ایران سے 96 علماء منتخب کئے جاتے ہیں۔ رہبر معظم مسلح افواج کا کمانڈر انچیف ہوتا ہے۔ حکومت کا سربراہ صدر ہوتا ہے جسے پورے ملک سے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے۔ آئین کے تحت کوئی فرد دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ قانون سازی کے اختیارات مجلس کے پاس ہیں جو 290 منتخب اراکین پر مشتمل اور 4 سال کے لئے علاقوں اور مذہبی برادریوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ عیسائیوں، زرتشتوں اور یہودیوں کے اپنے نمائندے مجلس میں شامل ہیں۔ مجلس کے منظور شدہ قوانین منظوری کے لئے شوری نگہبان کے پاس بھیجے جاتے ہیں۔
شوری نگہبان اس لحاظ سے مجلس کے منظور کردہ قوانین کا جائزہ لیتی ہے کہ وہ آئین اور اسلامی قوانین کے مطابق ہیں۔ اس میں رہبر معظم کی جانب سے نامزد کردہ 6 مذہبی رہنما اور عدلیہ کے نامزد کردہ 6 قانونی ماہرین شامل ہوتے ہیں جن کی منظوری مجلس دیتی ہے۔ کونسل کو مجلس، مقامی کونسلوں، صدارت اور مجلس خبرگان کے امیدواروں کو ویٹو کردینے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔
قانون سازی کے حوالے سے مجلس اور کونسل کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کے حل کے لئے 1988ء میں "مجمع تشخیص مصلحت نظام" (ایکسپیڈیئنسی کونسل) قائم کی گئی۔ اگست 1989ء سے یہ قومی پالیسی اور آئینی امور پر رہبر معظم کا مشیر ادارہ بن گئی۔ اس کے سربراہ سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی ہیں اور اس میں حکومت کے تینوں شعبوں کے سربراہ اور شوری نگہبان کے مذہبی ارکان شامل ہیں۔ رہبر معظم تین سال کے لئے ارکان نامزد کرتا ہے۔
مجلس کے بڑے گروہوں کو عموما "اصلاح پسند" اور "قدامت پرست" کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس وقت مجلس میں "آبادگاران" کا اتحاد غالب ہے۔ یہ قدامت پرست ہیں۔
[ترمیم] بین الاقوامی تعلقات
1997ء میں صدر خاتمی کے منتخب ہونے کے بعد ایران کے زیادہ تر ممالک سے تعلقات بہتر ہوئے۔ 1998ء میں برطانیہ اور ایران کے تعلقات اس یقین دہانی پر بحال ہوئے کہ ایرانی حکومت کا سلمان رشدی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ 1999ء میں برطانیہ اور ایران نے سفارتکاروں کا تبادلہ کیا۔
ایران اور امریکہ کے تعلقات 1980ء میں ٹوٹے اور آج تک بحال نہیں ہوئے۔ جولائی 2001ء میں امریکہ نے ایران اور لیبیا پر پابندیوں کے قانون میں مزید 5 سال کے لئے توسیع کردی۔ جنوری 2002ء میں صدر بش نے ایران کو "بدی کے محور" (Axis of Evil) کا حصہ قرار دیا۔ اس وقت ایران مغربی طاقتوں کی جانب سے جوہری پروگرام، مبینہ دہشت گردی، مشرق وسطی کے امن کو خراب کرنے کے خواہشمند گروہوں کی مبینہ سرپرستی اور دیگر الزامات کا نشانہ بنا ہوا ہے۔
[ترمیم] عراق سے تعلقات
1980ء کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات کبھی معمول پر نہیں آسکے تاہم عراق کے تنازعے پر ایران نے غیر جانبدار ہونے کا اعلان کردیا اگرچہ اس نے فوجی کارروائی پر تنقید کی لیکن اس نے اعلان کیا کہ وہ تنازعے سے باہر رہے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک مستحکم اور متحد عراق کے لئے کام کرنا چاہتا ہے۔ ایران کا عراق کی عبوری حکومت کے ساتھ براہ راست دو طرف معاہدہ ہے۔ ایران بجلی کی فراہمی کے سلسلے میں عراق کی مدد کررہا ہے۔ 30 نومبر 2004ء کو عراق میں سلامتی، عام انتخابات کے بروقت انعقاد اور بیرونی عناصر کی مداخلت روکنے پر غور کے لئے ایران میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کی میزبانی ایرانی وزارت داخلہ نے کی۔ اس کانفرنس میں عراق، سعودی عرب، کویت، ترکی، اردن اور مصر کے وزرائے داخلہ اور سیکورٹی حکام نے شرکت کی۔
[ترمیم] افغانستان
ایران افغان خانہ جنگی سے بھی متاثر ہورہا ہے اور وہاں استحکام کے فروغ کا خواہاں نظر آرہا ہے۔ ایران نے افغانستان کی تعمیر نو کے لئے 5 سالوں میں 560 ملین ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے۔ دونوں ملکوں نے منشیات کے خلاف ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کیا ہے۔ ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں جن کی وطن واپسی کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔
[ترمیم] اسرائیل
1979ء میں انقلاب کے بعد سے ایران کا موقف یہ رہا ہے کہ اسرائیل کا وجود غیر قانونی ہے۔ ایران اب بھی اسرائیل کی پرجوش مخالفت پر قائم ہے۔ وہ مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کے اقدامات پر بھی اعتراضات کرتا رہتا ہے اور مبینہ طور پر فلسطین اور لبنان کے ان اسرائیل مخالف گروہوں کی مدد کرتا رہتا ہے۔ 2002ء میں ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل اور فلسطین کو کوئی معاہدہ قابل قبول ہو تو ایران ایسے دو طرفہ معاہدے کو رد نہیں کرے گا۔
[ترمیم] قدرتی آفات
ایران انتہائی متحرک زلزلے کی پٹی پر واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں آئے دن زلزلے آتے رہتے ہیں۔ 1991ء سے اب تک ملک میں ایک ہزار زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کئے جاچکے ہیں جن سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 17 ہزار 600 جانیں ضائع ہوئیں۔ 2003ء میں جنوب مشرقی ایران میں شدید زلزلے نے تباہی مچادی۔ اس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.3 تھی اور اس نے قدیم قصبہ بام کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ اس زلزلے میں 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
2003ء میں امن کا نوبل انعام جیتنے والی وکیل شیریں عبادی کا تعلق ایران سے ہے۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی ایران اور مسلم خاتون ہیں۔
اسلامی جمہوریتیں | |
افغانستان | ایران | پاکستان | ماریطانیہ |
موتمر عالم اسلامی | |
افغانستان | الجزائر | البانیا | آذربائیجان | بحرین | بنگلہ دیش | بینن | برکینا فاسو | برونائی | کیمرون | چاڈ | جزائر قمر | آئیوری کوسٹ | جبوتی | مصر | گیبون | گیمبیا | گنی | گنی بساؤ | گیانا | انڈونیشیا | ایران | عراق | اردن | کویت | قازقستان | کرغزستان | لبنان | لیبیا | مالدیپ | ملائیشیا | مالی | ماریطانیا | مراکش | موزمبیق | نائجر | نائجیریا | اومان | پاکستان | فلسطین | قطر | سعودی عرب | سینیگال | سیرالیون | صومالیہ | سوڈان | سورینام | شام | تاجکستان | ترکی | تیونس | ٹوگو | ترکمانستان | یوگینڈا | ازبکستان | متحدہ عرب امارات | یمن |
زمرہ جات: ایران | ممالک | مسلم ممالک