شام
وکیپیڈیا سے
|
|||||
شعار: ایمان، اتحاد، تنظیم | |||||
ترانہ: حـماةَ الـديارعليكمْ سـلامْ (وطن کے محافظ تم پر سلام) | |||||
دارالحکومت | دمشق |
||||
عظیم ترین شہر | دمشق | ||||
دفتری زبان(یں) | عربی | ||||
نظام حکومت
صدر
وزیر اعظم |
صدارتی نظام میں جمہوریہ بشار الاسد ناجی العطری |
||||
آزاد اعلان آزادی |
فرانس سے 17 اپریل 1946 |
||||
رقبہ - کل - پانی (%) |
185,180 مربع کلومیٹر (86 واں) 115,065 مربع میل 0.06 |
||||
آبادی - تخمینۂ 2005 - کثافت |
19,043,000 (55 واں) 103 فی مربع کلومیٹر(96 واں) 267 فی مربع میل |
||||
جی۔ ڈی۔ پی۔ (پی۔ پی۔ پی۔) - مجموعی - فی کس |
2005 تخمینہ 71.74 ارب ڈالر (65 واں) 5,348 ڈالر (101 واں) |
||||
ایچ۔ ڈی۔ آئی۔ (2004) | 0.716 (103 واں) – متوسط | ||||
سکہ | شام کا پاونڈ (SYP ) |
||||
منطقۂ وقت - گرما (ڈی۔ ایس۔ ٹی۔) |
EET (یو۔ ٹی۔ سی۔ +2:00) مستعمل (یو۔ ٹی۔ سی۔ +3:00) |
||||
انٹرنیٹ ٹی۔ ایل۔ ڈی۔ | .sy | ||||
کالنگ کوڈ | +963 |
شام (عربی میں سورية ۔ انگریزی میں Syria) مشرقِ وسطی کا ایک بڑا ملک ہے۔ اس کا مکمل نام الجمهورية العربية السورية ہے۔ اس کے مغرب میں لبنان، جنوب مغرب میں فلسطين، جنوب میں اردن، مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے۔ شام دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ موجودہ دور کا شام 1946 میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہوا تھا۔ اس کی آبادی دو کروڑ ہے جن میں اکثریت عربوں کی ہے۔ بہت تھوڑی تعداد میں اسیریائی، کرد، ترک اور دروز بھی شام میں رہتے ہیں۔
فہرست |
[ترمیم] تاریخ
[ترمیم] قدیم زمانہ
شام دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ دنیا کے قدیم ترین سامی اقوام اور زبانوں کے آثار شام سے دستیاب ہوئے ہیں۔ مشرقی شام کے شہر عبیل ( عربی میں ع عبيل ف، انگریزی میں Ebla ) سے 1975 میں ایک عظیم سامی سلطنت کے آثار ملے ہیں جس میں قدیم ترین سامی زبانوں اور تہذیب کا بہترین نوادراتی اثاثہ شامل ہے جس میں 17000 مٹی کی تختیاں ہیں۔ ان پر اس زمانے کی تجارت، ثقافت، زراعت وغیرہ کے بارے میں بیش قیمت معلومات درج ہیں۔ ان کا زمانہ 2500 قبل مسیح سے بھی پہلے کا ہے۔ شام پر یکے بعد دیگرے کنعانیوں، عبرانیوں ، اسیریائی لوگوں اور بابل کے لوگوں نے قبضہ کیا اور نت نئی تہذیبوں کو جنم دیا جن کو آج ہم دنیا کی قدیم تہذیبوں کے نام سے جانتے ہیں۔ بعد میں رومیوں ، بازنطینیوں ، یونانیوں ، ایرانیوں اور عربوں نے بھی شام پر حکومت کی۔
[ترمیم] اسلامی عہد
دمشق جو دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں سے ایک ہے، 636 عیسوی میں مسلمانوں نے فتح کیا۔ بعد میں 661 عیسوی سے 750 عیسوی تک وہاں اموی سلطنت قائم رہی جس کی حدود ھسپانیہ سے وسطی ایشیاء تک تھیں۔ 750 عیسوی میں عباسیوں نے امویوں کو سلطنت و خلافت سے بے دخل کر دیا اور سلطنت کا مرکز بغداد بن گیا۔ 1260 عیسوی میں مملوکوں نے اسے دوبارہ دارالخلافہ بنایا مگر امیر تیمور نے 1400 عیسوی میں دمشق اور گردو نواح کو تباہ کر دیا اور اس کے تمام نابغہ روزگار لوگوں اور ھنرمندوں کو اپنے ساتھ سمرقند لے گیا۔ اس کے بعد انیسویں صدی کے شروع تک یہ زیادہ تر عرصہ سلطنت عثمانیہ کے تحت رہا۔ 1918 میں وہاں فرانسیسیوں اور برطانویوں کی ایما پر ایک کٹھ پتلی حکومت قائم ہوئی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کچھ ہی عرصہ بعد شام کا زیادہ تر علاقہ فرانسیسیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔
[ترمیم] فرانسیسی اختیار
شریف مکہ نے برطانوی سامراج کی ایما پر ترکی خلافت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے 1918 عیسوی میں دمشق میں ایک قومی حکومت قائم کرنے میں مدد دی جو فیصل بن حسین نے قائم کی جس کے تحت شام کے کچھ علاقے، لبنان، اردن اور فلسطین کے کچھ علاقے آتے تھے۔ 1919 عیسوی میں انتخابات ہوئے اور ایک مجلس (پارلیمنٹ) قائم ہوئی مگر اصل طاقت برطانوی سامراج اور اس کے دوستوں کے پاس رہی۔ 1916 میں برطانیہ اور فرانس میں ایک خفیہ معاہدہ ہوا جسے Sykes-Picot Agreement کہتے ہیں۔ جس کے بعد مجلس اقوام عالم (لیگ آف نیشنز)، جو اقوام متحدہ کی ابتدائی شکل تھی، کے ذریعے یہ اقتدار فرانس کو سونپ دیا گیا۔ 1920 عیسوی میں فرانسیسی افواج نے شام پر مکمل قبضہ کر لیا اور شام کو 1921 میں چھ ریاستوں میں تقسیم کردیا جن میں لبنان بھی شامل تھا۔ فلسطین کے بارے میں انگریزوں نے 1917 میں ہی ایک خفیہ معاہدہ ( بالفور کا معاہدہ) کیا تھا جس میں وہاں ایک یہودی ریاست کے قیام کی منظوری دی گئی تھی۔ یہ وہ عہد تھا جس میں فرانس ، برطانیہ اور دیگر سامراجی اور سرمایہ دار ممالک نے مشرق وسطی کو مختلف خفیہ معاہدوں کی مدد سے آپس میں بانٹ لیا تھا۔ اس اثناء میں شام میں کئی مزاحمتی تحریکوں نے جنم لیا۔ فرانس نے شام کو کئی دفعہ مصنوعی آزادی کا فریب دیا۔ 1932 میں شام میں پہلی دفعہ آزادی کا اعلان ہوا مگر پارلیمنٹ فرانس کی مرضی کی تھی اور تمام کابینہ ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جو فرانس کے حواری تھے۔ اسی وجہ سے شام اس وقت ایک آزاد ملک نہ بن سکا۔ آزادی کی تحریکیں چلتی رہیں حتیٰ کہ یہ پارلیمنٹ فرانس نے 1939 میں دوسری جنگ عظیم کے بہانے ختم کر دی۔ فرانس خود 1940 میں جرمنی کے قبضہ میں آ گیا مگر شام پھر بھی آزاد نہ کو سکا اور برطانوی اور فرانسیسی افواج نے 1941 میں شام کو روند ڈالا۔ اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے فرانس نے کئی پارلیمنٹیں بنوائی اور مصنوعی حکومتیں تشکیل دیں۔ ایسی ایک پارلیمنٹ 1943 میں تشکیل دی گئی جس کے ساتھ 1944 میں فرانس نے ایک معاہدہ آزادی کیا۔ مگر 1945 میں فرانسیسی افواج نے دمشق کے ارد گرد گھیرا ڈال کر زبردست بمباری کی اور پارلیمنٹ کی عمارت تباہ کر دی۔ اس بمباری میں شامی حکومت کے افراد کے علاوہ 2000 سے زیادہ عام لوگ، عورتیں اور بچے ھلاک ہوئے۔
[ترمیم] آزادی
دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے فرانس اور برطانیہ دونوں کمزور ہو گئے تھے۔ فرانس نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ مزید شام پر اپنا قبضہ نہیں رکھ سکتا تو اس نے شام کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا۔ 1946 میں فرانس نے 1944 میں کیے جانے والے معاہدہ آزادی کو دوبارہ تسلیم کر لیا اور 15 اپریل 1946 کو فرانسیسی اور برطانوی افواج شام سے نکل گئیں۔ 17 اپریل 1946 کو شام نے آزادی کا اعلان کر دیا اور بیسویں صدی کا ایک آزاد ملک بن گیا۔ اس کا نام الجمہوریہ السوریۃ رکھا گیا۔ بعد میں 30 مارچ 1949 کو برطانیہ، فرانس اور سی آئی اے (CIA ) کی مدد سے ایک فوجی بغاوت ہوئی جس نے حکومت پر قبضہ کر لیا اور کم و بیش وہی کہانی شروع ہو گئی جو نوآزاد مسلمان ملکوں کی مشترکہ داستان ہے۔
[ترمیم] شام بطور آزاد ملک
شامی افواج نے 1948 کی عرب اسرائیلی جنگ میں حصہ لیا جس کے بعد برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی جاسوسی تنظیم سی آئی اے (CIA) نے اس کی حکومت کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ اس سازش نے مارچ 1949 کی فوجی بغاوت کو جنم دیا۔ (1952 میں ایسی ہی فوجی بغاوت مصر میں بھی ہوئی)۔ جنرل حسنی الزعیم ( جنرل زعیم) نے اقتدار سنبھالا۔ جنرل زعیم 25 جولائی 1949 کو ایک استصواب رائے (ریفرینڈم) کے ذریعے 99 فی صد ووٹ لے کر صدر بن گیا۔ (بعینہ یہی کہانی پاکستان اور دوسرے کئی ممالک میں بھی دہرائی گئی ہے)۔ اگست میں ایک اور فوجی بغاوت ہوئی جس کے بعد جنرل زعیم کو قتل کر دیا گیا۔ ایک نئی حکومت بن گئی۔ اس حکومت نے عراق کے ساتھ اتحاد کی کوشش کی جسے برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی جاسوسی تنظیم سی آئی اے (CIA) نے سخت ناپسند کیا حالانکہ عراق میں بھی انھی کی کٹھ پتلی حکومت قائم تھی۔ مگر وہ اسلامی ممالک کے اتحاد کو برداشت نہیں کر سکتے تھے چنانچہ اسی سال دسمبر میں ایک اور فوجی بغاوت میں جنرل ششکالی کی حکومت قائم ہوئی۔ اس حکومت نے 1953 میں ایک آئین بھی منظور کیا۔ عوامی دباو پر 1955 میں انتخابات ہوئے اور ایک غیر فوجی حکومت قائم ہو گئی۔ جس نے مصر کی حکومت سے تعلقات قائم کیے۔ روس کے ساتھ قریبی تعلقات قائم ہوئے۔ 22 فروری 1958 کو مصر اور شام نے اتحاد کیا اور ایک متحدہ ملک قائم ہو گیا جس کا نام متحدہ عرب جمہوریہ تھا۔ یاد رہے کہ مصر میں بھی امریکی اور برطانوی حمایت یافتہ قوتیں ختم کر کے جمال عبد الناصر برسراقتدار آچکے تھے جن کی وجہ سے یہ اتحاد ممکن ہوا۔ مگر 28 ستمبر 1961 میں سامراجی قوتوں کی ایما پر ایک اور فوجی بغاوت ہوئی جس نے یہ اتحاد ختم کر کے شام کو دوبارہ ایک الگ ملک کی حیثیت دے دی۔ ملک میں روسی حمایت یافتہ لوگوں اور سامراجی حمایت رکھنے والوں کے درمیان رسہ کشی جاری رہی اور 8 مارچ 1963 کو بعث پارٹی کے لوگوں نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ بعث پارٹی نے تیل کی صنعت کو قومیا لیا اور عیسائی مشنری سکولوں کو بند کر دیا۔ 23 فروری 1966 کو اسی پارٹی کے حافظ الاسد نے حکومت پر قبضہ کر کے صدر امین حفیظ کو برطرف کر دیا۔ انہی حافظ الاسد کے بیٹے بشار الاسد آج کل شام کے حاکم ہیں۔ 1973 میں شام نے مصر کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف جنگ کی اور گولان کی پہاڑیوں کا کچھ حصہ آزاد کروایا ۔ اس موقع پر روس اور امریکہ دونوں ایک ہو گئے اور جنگ بندی میں اہم کردار ادا کیا۔ انہی ممالک نے مصر اور اسرائیل کی صلح کروائی اور مصر نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اس مین بنیادی کردار امریکی وزیر خارجہ ھنری کسنجر نے ادا کیا جو خود ایک سابقہ جرمن یہودی تھا۔ مگر شام اس حد تک جانے پر تیار نہ ہوا اور اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ 1976 میں شامی افواج لبنانی حکومت کی درخواست پر لبنان میں داخل ہوئیں اور لبنان میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کو روکنے میں اھم کردار ادا کیا۔ 10 جون 2000 کو حافظ الاسد کا انتقال ہو گیا اور ان کے بیٹے بشار الاسد نے صدارت سنبھال لی۔ انھوں نے سابقہ حکومت کی نسبت شخصی آزادیوں میں بہتری پیدا کی ہے۔ آج کل وہ امریکہ کے ساتھ سرد جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ 16 جون 2006 کو انھوں نے ایران کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ بھی کیا ہے جو بہت اہم ہے اور اس کے ذریعے ھتھیاروں کا تبادلہ بھی ممکن ہے۔
[ترمیم] انتظامی تقسیم
بائیں طرف دیے گئے نقشے کے مطابق شام کو چودہ مختلف صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں محافظات (محافظہ کی جمع) کہا جاتا ہے۔
|
[ترمیم] معیشت
شام ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی معیشت سوشلسٹ نظریات پر مبنی ہے۔ زیادہ تر صنعتیں قومی ملکیت میں ہیں۔ ساٹھ فی صد لوگ بیس سال سے کم عمر ہیں یعنی کام نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ خواتین میں بھی کام کرنے کا رحجان کم ہی ہے۔ اس کے باوجود بے روزگاری کی شرح بیس فی صد سے زیادہ رہتی ہے۔ شام کچھ تیل برامد کرتا ہے۔ جس میں صرف اسی صورت میں اضافہ کی توقع ہے اگر بین الاقوامی تیل کمپنیاں سرمایہ کاری کریں جو آج کل امریکی دباو کی وجہ سے بند ہے۔ اس طرح کی معیشت بار بار فوجی انقلاب اور بعد میں انتہائی سخت پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ شام کی صنعت کچھ ترقی یافتہ ہے اور وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل بھی ہے۔ شام کی صرف ایک تہائی زمین قابل کاشت ہے جس کا زیادہ انحصار بارش پر ہے۔ زراعت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں نجی ملکیت کی شرح زیادہ ہے مگر زرعی اشیا کی درآمد و برآمد پر حکومت کا اختیار زیادہ ہے۔ فی کس آمدنی پانچ ھزار امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ مگر شہری لوگوں اور دیہاتیوں کی آمدنی میں بہت فرق ہے۔
[ترمیم] جغرافیہ
شام ایک گرم اور خشک ملک ہے۔ سردیاں ہلکی ہوتی ہیں مگر کبھی کبھی بحیرہ روم اور لبنان کی سرحد کے قریبی علاقوں برفباری بھی ہو جاتی ہے۔ شام کا زیادہ حصہ بنجر ہے اور ایک تہائی زمین قابل کاشت ہے۔ قابل ذکر دریا دریائے فرات ہے جو ملک کے مشرق میں بہتا ہے جس سے ملک کا شمال مشرقی حصہ جو الجزیرہ کہلاتا ہے کچھ سرسبز ہے۔ اس کے علاوہ پانی کے بیشتر ذرائع پر ترکی کا کنٹرول ہےکیونکہ وہ ترکی کے علاقوں سے بہہ کر آتے ہیں۔ بڑے شہر زیادہ تر ساحل سمندر کے پاس ہیں یا دریائے فرات پر۔ دمشق سب سے بڑا شہر اور دار الحکومت ہے جو لبنان کی سرحد کے بہت قریب ہے۔
[ترمیم] اھم اعداد و شمار
شام کے 80 فی صد کے قریب لوگ پڑھے لکھے ہیں جن کی فی کس آمدنی پانچ ھزار امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ شام میں 92 فی صد سے زیادہ مسلمان اور تقریباً آٹھ فی صد عیسائی، علوی اور دروز ہیں۔ عربی النسل لوگ 85 فی صد ہیں اور کرد لوگ 10 فی صد ہیں۔ باقی لوگوں میں آرمینیائی، اسیریائی اور دیگر لوگ شامل ہیں۔ شام میں عراقی اور فلسطینی مہاجرین کی تعداد بھی تقریباً بیس لاکھ کے قریب ہے۔ عربی سب سے اہم زبان ہے لیکن دیہات میں کچھ علاقوں میں شام کی قدیم زبانیں مثلاً آرامی بھی سننے کو مل سکتی ہیں مگر دم توڑ رہی ہیں۔
[ترمیم] سیاست
شام میں ایک پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہے۔ بعث پارٹی کو قانوناً سب سے زیادہ اختیار ہے۔ اگرچہ چھ دیگر پارٹیاں بھی کام کرتی ہیں اور حکومتی نظام کا حصہ ہیں مگر بعث پارٹی کو ایک قانون کے تحت برتری حاصل ہے اور عملاً اسی کے نظریات کے تحت حکومت چلتی ہے۔ یہ پارٹیاں مل کر ایک کونسل بناتی ہیں جس کا انتخاب ہر چار سال بعد ہوتاہے مگر اس کونسل کو محدود اختیارات حاصل ہیں۔ اصل اختیارات صدر کو حاصل ہیں جس کی صدارت کی توثیق کے لیے ہر سات سال بعد ایک ریفرینڈم ہوتا ہے۔ صدر کابینہ کا انتخاب کرتا ہے۔ صدر ہی فوج کا سربراہ ہوتا ہے اگرچہ خود فوجی نہیں ہوتا۔ یہ نظام بعث پارٹی کی حیثیت کو مضبوط رکھتا ہے۔
[ترمیم] شام کے شہر
- دمشق (عربی میں دمشق یا الشام ۔ انگریزی میں Damascus )
- حلب (عربی میں حلب ۔ انگریزی میں Aleppo )
- درعا (عربی میں درعا ۔ انگریزی میں Daraa )
- دير الزور (عربی میں دير الزور ۔ انگریزی میں Deir ez-Zor )
- حماہ (عربی میں حماة ۔ انگریزی میں Hama )
- حسکہ (عربی میں الحسكة ۔ انگریزی میں Al Hasakah )
- حمص (عربی میں حمص ۔ انگریزی میں Homs )
- ادلب (عربی میں إدلب ۔ انگریزی میں Idlib )
- اذقیہ (عربی میں اللاذقية ۔ انگریزی میں Latakia )
- قنیطرہ (عربی میں القنيطرة ۔ انگریزی میں Al Qunaytirah )
- رقہ (عربی میں الرقة ۔ انگریزی میں Ar Raqqah یا Rakka )
- سویدا (عربی میں السويداء ۔ انگریزی میں As Suwayda )
- طرطوس (عربی میں طرطوس ۔ انگریزی میں Tartous )
- تدمر (عربی میں تدمر ۔ انگریزی میں Palmyra )
- قامشلی (عربی میں القامشلي ۔ انگریزی میں Qamishli )
- عبیل ( عربی میں ع عبيل ف، انگریزی میں Ebla )
[ترمیم] شام تصویروں میں
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا مزار، دمشق |
تدمر، شام میں آثار قدیمہ |
دمشق میں صلاح الدین ایوبی کا مزار |
صحن جامع اموی۔ دمشق |
مسجد جامع النوری کا مینار۔ حماہ، شام |
حماہ میں دریائے آسی پر ایک پن چکی |
تدمر، شام میں ایک قدیم تھئیٹر |
تصویر کو بڑا کرنے کے لیے اس پر کلک کریں۔