احمد یاسین
وکیپیڈیا سے
احمد یاسین (پیدائش:1938ء، انتقال:22 مارچ 2004ء) فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے بانی اور روحانی پیشوا تھے۔ انہوں نے 1987ء میں عبدالعزیز الرنتیسی کے ساتھ مل کر حماس تشکیل دی۔
فہرست |
[ترمیم] ابتدائی زندگی
شیخ احمد یاسین 1938ء میں پیدا ہوئے۔ اُس وقت فلسطین پر برطانیہ کی حکمرانی میں تھا اس وقت سے ہی ان کے تمام نظریات اور تصورات اس توہین و حزیمت پر استوار ہونے لگے جس کا فلسطینیوں کو شکست کے بعد سامنا تھا۔
بچپن میں ایک حادثہ کے نتیجہ میں وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے جس کے بعد انہوں نے اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے لئے وقف کر دی تھی۔
انہوں نے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں تعلیم حاصل۔ قاہرہ اس وقت ’اخوان المسلمون‘ کا مرکز تھا۔ یہ دنیائے عرب کی پہلی اسلامی سیاسی تحریک تھی۔
یہیں پر ان کا یہ عقیدہ راسخ ہوتا چلا گیا کہ فلسطین اسلامی سرزمین ہے اور کسی بھی عرب رہنما کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کے کسی بھی حصہ سے دستبردار ہو۔
اگرچہ فلسطینی انتظامیہ سمیت عرب رہنماؤں سے ان کے تعلقات استوار رہے تاہم ان کا یہ راسخ عقیدہ تھا کہ "نام نہاد امن کا راستہ امن نہیں ہے اور نہ ہی امن جہاد اور مزاحمت کا متبادل ہوسکتا ہے"۔
[ترمیم] حماس کا قیام
دبلے پتلے جسم کے مالک شیخ یاسین کی نظر بھی انتہائی کمزور تھی اور وہ انتہائی دھیمی آواز میں گفتگو کیا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ ان تمام فلسطینیوں کی امیدوں کا مرکز تھے جو اس تصور سے مایوس ہو چکے ہیں کہ امن ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی لا سکتا ہے۔
شیخ یاسین کو سب سے پہلے 1987ء میں عالمی شہرت ملی جب وہ انتفاضہ اول کے موقع پر سامنے آئے۔
اس وقت فلسطینی اسلامی تحریک نے حماس نام اختیار کیا جس کے معنی جوش و جذبہ کے ہیں، اور شیخ یاسین اس کے روحانی قائد چنے گئے۔
1989ء میں اسرائیلی فوج سے تعاون کرنے والے فلسطینیوں کے قتل کا حکم دینے کی پاداش میں اسرائیل نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
1997ء میں انہیں ان دو اسرائیلی ایجنٹوں کے بدلے رہا کر دیا گیا تھا جن پر اردن میں فلسطینی رہنماؤں کو قتل کرنے کا الزام تھا تاہم اسیری کے ان دنوں میں ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور وہ فلسطین کی جہادی مزاحمت کی علامت بن گئے۔
وہ اردن میں ہونے والی عقبہ سربراہ ملاقات اور مذاکرات کے نتائج سے بھی مطمئن نہیں تھے۔ اس ملاقات میں امریکہ، اسرائیل اور فلسطینی رہنماؤں نے ایک دوسرے سے ملاقاتیں کی تھیں اور اس سربراہ کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں اس وقت کے فلسینی وزیراعظم محمود عباس نے تشدد کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
اسرائیل ان سے شدید نفرت کااظہار کرتا رہا ہے بلکہ انہیں فلسطینیوں کا اسامہ بن لادن قرار دیتا ہے۔
[ترمیم] قتل
شیخ ستمبر 2003ء میں ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے۔ تاہم 22 مارچ 2004ء کو اسرائیل کے ایک گن شپ ہیلی کاپٹر کے میزائل حملے میں جاں بحق ہوگئے۔ اس وقت آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے جارہے تھے۔ حملے میں ان کے دونوں محافظین سمیت 10 دیگر افراد بھی جاں بحق اور شیخ یاسین کے دو صاحبزادوں سمیت 12 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
[ترمیم] عالمی ردعمل
اقوام متحدہ کے اُس وقت کے معتمد عام کوفی عنان نے اسرائیل کے اس اقدام کی شدید مخالفت کی۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق نے ان کے قتل کے خلاف قرارداد منظور کی جو چین، بھارت، انڈونیشیا، روس اور جنوبی افریقہ سمیت 31 ممالک کی حمایت سے منظور ہوئی۔ مخالفت میں دو رائے آئیں جبکہ 18 ارکان غیر حاضر رہے۔ عرب لیگ اور افریقی یونین نے بھی ان کے قتل کی مذمت کی۔ برطانیہ اور امریکہ کا ردعمل یہ رہا "اسرائیل کو اپنے تحفظ کا حق حاصل ہے لیکن وہ اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں" جبکہ عراق میں اس وقت کے امریکی سفیر جان نیگروپونٹے نے یاسین کو ایک "دہشت گرد" تنظیم کا سربراہ قرار دیا۔
اسرائیل کے اس وقت کے وزیر دفاع شاؤل موفاز نے انہیں "فلسطینی بن لادن" قرار دیا جبکہ حزب اختلاف کے سربراہ شمعون پیریز کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ رہنماؤں کو قتل کرنے سے دہشت گردی ختم کی جاسکتی ہے، یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔
ان کے قتل پر فلسطینی اتھارٹی نے تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا اور رملہ میں یاسر عرفات کی رہائش گاہ پر فلسطینی پرچم سرنگوں رہا۔
حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ نے کہا کہ "شیخ یاسین اس وقت کے منتظر تھے کہ انہیں شہادت ملے، ایریل شیرون نے اپنے لئے جہنم کا دروازہ کھول دیا ہے"۔
غزہ میں ان کی نمازہ جنازہ میں دو لاکھ افراد نے شرکت کی۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یاسین کے قتل کی مذمت کے حوالے سے قرارداد پیش کی جسے امریکہ نے ویٹو کردیا۔
شیخ احمد یاسین کا مشہور قول یہ ہے:
ہم نے اس راہ کا انتخاب کیا ہے جس کا اختتام فتح یا شہادت ہے
عبدالعزیز رنتیسی کو ان کی جگہ حماس کا قائد قرار دیا گیا جو 17 اپریل 2004ء کو اسرائیل کے دوسرے حملے میں جاں بحق ہوئے۔