جبروقدر
وکیپیڈیا سے
یہ مسئلہ کہ انسان مجبور ہے۔ یا صاحب اختیار ، ہمیشہ سے فلسفیوں میں زیر بحث رہا ہے۔ بلکہ ایک گروہ کا خیال ہے کہ انسان اپنی مرضی کا مالک نہیں ہے بلکہ اس کی مرضی اس کی تعلیم و تربیت اور خارجی حالات و تاثرات سے متعین ہوتی ہے۔ عہد قدیم میں یونان کے روایتی فلسفیوں کا یہی نظریہ تھا۔ ابتدا میں مسلمانوں کا رجحان بھی جبر کی طرف تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ انسان کے اعمال و افعال کی تفصیل لوح محفوظ پر رقم ہوتی ہے اور کوئی شخص اس لکھے کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ مگر معتزلہ نے اس نظریے کی مخالفت کی۔ وہ انسان کو آزادانہ اور اپنی مرضی کا مالک خیال کرتے تھے۔ پہلے گروہ کو جبریہ دوسرے کو قدریہ کہتے ہیں۔ اشاعرہ کے خیال میں انسان کی حالت دونوں کے بین بین ہے۔ یعنی وہ نہ جزا سزا اختیاری چیزوں میں ہے۔ اضطراری میں نہیں۔
[ترمیم] مزید دیکھیے
- قدریہ
- قضاوقدر