New Immissions/Updates:
boundless - educate - edutalab - empatico - es-ebooks - es16 - fr16 - fsfiles - hesperian - solidaria - wikipediaforschools
- wikipediaforschoolses - wikipediaforschoolsfr - wikipediaforschoolspt - worldmap -

See also: Liber Liber - Libro Parlato - Liber Musica  - Manuzio -  Liber Liber ISO Files - Alphabetical Order - Multivolume ZIP Complete Archive - PDF Files - OGG Music Files -

PROJECT GUTENBERG HTML: Volume I - Volume II - Volume III - Volume IV - Volume V - Volume VI - Volume VII - Volume VIII - Volume IX

Ascolta ""Volevo solo fare un audiolibro"" su Spreaker.
CLASSICISTRANIERI HOME PAGE - YOUTUBE CHANNEL
Privacy Policy Cookie Policy Terms and Conditions
خواجہ میر درد کی شاعری - وکیپیڈیا

خواجہ میر درد کی شاعری

وکیپیڈیا سے

خواجہ میر درد صوفی شاعر


بقول مولانا محمد حسین آزاد
” تصوف میں جیسا انہوں نے لکھا اردو میں آج تک کسی سے نہ ہوا۔“
بقول امداد اثر
” معاملات تصوف میں ان سے بڑھ کر اردو مےں کوئی شاعر نہیں گزرا۔“
عبدالسلام ندوی،
” جس زمانے میں اردو شاعری اردوہوئی خواجہ مےر درد نے اس زبان کو سب سے پہلے صوفیانہ خیالات سے آشنا کیا۔“


فہرست

[ترمیم] درد اور متصوفانہ شاعری

[ترمیم] تصوف کیا ہے:۔

١)تصوف صفحہ اوّ ل سے ماخوذ ہے چونکہ صوفیاءعبادت الٰہی کے شوق میں نماز کی پہلی صف میں بیٹھتے تھے اس لئے یہ نام رائج ہوا

٢) یہ لفظ صوف سے نکلا ہے جس کے معنی علیٰحدہ رہنے کے ہیں۔

٣) لفظ تصوف صفاءیعنی پاکیزگی سے ماخوذ ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کوہ صفاءشروع میں صوفیوں کی قیام گا ہ تھی جس وجہ سے یہ نام رائج ہوا۔

٤) شیخ ابوالحسن احمد نوری کا کہنا ہے کہ تصوف کے معنی ”تمام خطوط نفس کو ترک کرنا ہے۔“

٥) تصوف اجتماعی ناانصافی کے خلاف ضمےر انسانی کی اندرونی بغاوت کا نام ہے۔

٦)تصوف ایک ایسا خیال ہے جہاں ماننے کے لئے جاننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

مشہور فاضل اور شاعر سراج الدین علی خان آرزو نے خواجہ میر درد کو اوائل جوانی میں دیکھ کر کہا تھا کہ ” وہ ایک صاحب فہم و ذکا جوان ہیں جو کچھ میں ان میں دیکھتا ہوں اگر فعل میں آگیا تو انشاءاللہ فن تصوف میں نام پائیں گے۔“
خواجہ میر درد کی شہرت کا سب سے بڑا سبب ان کا متصوفانہ کلام ہے اردو کی صوفیانہ شاعری میں جو مقام اور مرتبہ درد کو حاصل ہے وہ اور کسی شاعر کے حصے میں نہیں آیا۔ ان سے بہتر صوفیانہ شاعری کے نمونے اردو میں نہیں ملتے ۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ ان وجوہات پر غور و فکر کریں تو سب سے اہم بات یہ نظرآتی ہے۔ کہ درد ایک خاندانی صوفی تھے۔ ان کے والد بزرگ خواجہ ناصر عندلیب دلی کے ممتاز صوفیاءمیں شمار کئے جاتے تھے۔ ان کی تمام عمر اُس مسلک کی اشاعت میں عمل پر گزری تھی۔
دلی میں خواجہ ناصر کی خانقاہ صوفیاءکا مرکز تھی۔ اکثر اہل نظر یہاں آتے تھے۔ درد نے اس باعمل باپ کی سرپرستی میں رہتے ہوئے تصوف کے اسرار و رموز سے آگاہی حاصل کی۔ جوانی کا کچھ حصہ تو انھوں نے مختلف ملازمتوں میں گزارا مگر عالم شباب ہی میں تمام دنیاوی آلائیشوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے صوفیا ءکے بورئیے پر بیٹھ گئے۔اور اس طرح درد اپنی تمام عمر ایک باعمل صوفی کی طرح جادہ ¿ تصوف پر گامزن رہے۔ درد کی شاعری میں صوفیانہ عناصر کی کامیاب پیشکش کا باعث ان کایہی تجربہ ہے۔ اس تجربے کے پیچھے ان کا تصوفانہ خلوص اور ان کی صداقت، اشعار میں بجلیاں بھر دیتی ہیں۔ اردو شعراءنے تصوف کو نظر ی طور پر قبول کیا تھا مگر درد نے عملی طور پر قبول کیاتھا۔ وہ تصوف کی تمام منازل سے عملی طور پر گزرے تھے۔ اس لئے ان کی نظر اور ان کی روح اس تجربے سے سرشار ہوئی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ درد کے کلام کی چاشنی پڑھنے والے کو بے حد متاثر کرتی ہے۔


[ترمیم] درد باعمل صوفی:۔

تصوف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شعراءمحض منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے رسمی طور پر تصوف کے مضامین بھی نظم کر لیتے تھے۔لیکن چونکہ تصوف کا ان کی زندگی سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا اس لیے ان اشعار میں گرمی نہ ہوتی اور نہ وہ متاثر کر سکتے ۔ مگر خواجہ میر درد کی شاعری میں تصوف رسمی مضمون بن کر نہیں رہ جاتا ۔ وہ خود با عمل صوفی تھے اور جو کچھ بیان کرتے تھے اس کا تعلق ان کی زندگی سے تھا اس لیے میر درد کی صوفیانہ شاعری کا آج تک کوئی اور شاعر مقابلہ نہیں کر سکا۔ اس میدان میں وہ منفرد اور ممتاز حیثیت کے مالک ہیں ۔ وہ تصوف کی تمام منازل سے عملی طور سے گزرے تھے اسی لیے ان کی صوفیانہ شاعری خلوص اور صداقت میں ڈوبی ہوئی ہے۔

جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

اہل فنا کو نام سے ہستی کے ننگ ہے
لوح مزار بھی میری چھاتی پہ سنگ ہے


[ترمیم] عملی زندگی کا احساس:۔

درد صوفی ہونے کو باوجود زندگی سے بیزار نہیں تھے ۔ انہیں اس کے تمام پہلوئوں سے دلچسپی تھی ۔ اُن کے پاس انسانی زندگی کے جذباتی اور جسمانی نظام کی اہمیت کو سمجھنے کا گہرا شعور موجود تھا۔ تصوف کو وہ ایک نظام حیات سمجھتے تھے اور انہوں نے اس کو محض ایک فرار کے طور پر اختیار نہیں کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ تصوف اُن کے یہاں زندگی کی نفی نہیں کرتا، اور اس سے بیزار ہونا اور منہ موڑنا نہیں سکھاتا۔ راہ سلوک میں پہلا مقام حیرت کا ہے۔ جب انسان خالق حقیقی کے کھوج میں نکلتا ہے ۔ تجسس بڑھتا ہے کچھ سمجھ نہیں آتا ۔ اس ابتدائی مرحلہ کا حال صوفی کے دل پرکیا واردات مسلط کرتا ہے۔ وہ درد کی زبانی سنیے ۔

دل کس کی چشم مست کا سرشار ہو گیا
کس کی نظر لگی جو یہ بیمار ہوگیا

حیران آئینہ دار ہیں ہم
کس سے یارب دو چار ہیں ہم


[ترمیم] نظریہ عشق الٰہی:۔

صوفی عشق کی سخت ریاضت پر بہت زور دیتے ہیں۔ عشق کی سختیاں برداشت کرنا ان کے لئے ضرور ی ہیں ۔ درد بھی اسی عشق کا اظہار کرتے ہیں ۔ جہاں صوفی کی اس عشق میں ہڈیاں جل جاتی ہیں۔ دل پگھل جاتے ہیں ، بجلیاں کوندتی ہیں ، ان سختیوں کے بغیر عشق الہٰی نا ممکن ہے۔ عشق ہی تصوف کی بھٹی ہے جہاں سے انسان پاک و صاف ہو کر نکلتا ہے۔۔ اس وادی میں عاشق کو جو مرحلے پیش آتے ہیں درد کہیں کہیں ان کا ذکر کرتے ہیں۔

درد کا حال کچھ نہ پوچھو تم
وہی رونا ہے نت وہی غم ہے

ہم نے کس رات نالہ سر نہ کیا
پر اُسے آہ نے اثر نہ کیا

اذیت مصیبت ، ملامت بلائیں
تیرے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا


[ترمیم] ذات باری تعالیٰ تک رسائی:۔

صوفی اپنے دل میں عشق کی آگ روشن کر لیتا ہے۔ اور اسی عشق میں پناہ ڈھونڈ ھتا ہے اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب دل آئینہ کی طرح پاک اور صاف ہو۔ دل اُس وقت صاف ہو تا ہے جب وہ زمانے کی آلائشوں سے دور ہو جاتا ہے۔ مادی خواہشات کا دامن چھوڑ کر روحانی دنیا میں آجاتا ہے۔ اس عمل سے جب اس کا دل صاف ہو جاتا ہے تو دل اس قابل ہو تا ہے کہ وہ حقیقت کا ادراک کر سکے ۔ اس دل کے دریچے سے اُسے ذات باری کا جلوہ نظر آنے لگتا ہے۔

ارض و سماں کہاں تیری وسعت کو پاسکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سماں سکے

قاصد نہیں یہ کام تیرا اپنی راہ لے
اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے


[ترمیم] تلاش و تجسّس:۔

درد کی شاعری میں یہ نقوش کثرت سے ملتے ہیں ا ن کی شاعری میں ایک کھوج اور تجسّس کی خواہش عام ہے۔کیونکہ معرفت کی راہ میں پہلے تجسس پیدا ہوتا ہے پھر روحانی جدوجہد شروع ہوتی ہے۔ حقیقت کے لیے کش مکش اور تلاش درد کے صوفیانہ ملک کے اہم نشان ہیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ درد کی شاعری میں سوال اور استفسار اکثر ابھرتے ہیں، یہ باتیں کائنات کے خالق کے متعلق ہیں۔ مندرجہ ذیل اشعار صوفی کے اسی بڑھتے ہوئے تجسس کا حال بتاتے ہیں۔

درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے

نظر میرے دل کی پڑی درد کس پر
جدھر دیکھتا ہوں وہی روبرو ہے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے


[ترمیم] تصوف اور مسائل تصوف:۔

میر درد نے محض رسمی طور پر تصوف کو قبول نہیں کیا اگر وہ شاعر نہ ہوتے تو بھی باعمل صوفی ہوتے ان کے ہاں تمام علوم کا تعلق بنیادی طورپر تین موضوعات سے ہے۔ اور اسی سے تمام علوم جنم لیتے ہیں۔

١) خدا ٢) انسان ٣) کائنات

١ ) خدا کیا ہے ، کہاں ہے یعنی مابعدالطبیعات کے مسائل

٢ انسان کی حقیقت ، کائنات میں اس کا مقام ، خدا سے اس کا رشتہ

٣) کائنات اور انسان کا رشتہ ، کائنات اورخدا کا رشتہ ، یہ کائنات خدا کا عکس ہے ۔ تصوف کیبحث ان تین موضوعات میں مقید ہے۔

[ترمیم] وحدت الوجود اور وحدت الشہود:۔

اس ضمن میں صوفیاءکے دو نظریے ہیں۔ ١ ) وحدت الوجود والوں کے عقیدے کی رو سے کائنات میں جو کچھ ہے وہ خدا کا پرتو ہے ٢) جبکہ وحدت الشہود والے کہتے ہیں کہ کائنات میں جو کچھ ہے وہ خدا کے مختلف جلوے ہیں۔ درد دونوں نظریات کو درست مانتے ہیں البتہ وحدت الشہود کو شریعت کے زیادہ قریب سمجھتے ہیں اور اسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس بات کا خارجی ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنی نثر ی تصنیف علم الکتاب ، میں کہتے ہیں ” وحدت الوجود کا عقیدہ نفس کے اعتبار سے باطل ہے اور وحدت الشہود کا عقیدہ حق ہے۔“

دونوں جہاں کو روشن کرتا ہے نور تیرا
عیان میں مظاہر ظاہر ظہور تیرا

ہے جلوہ گاہ تیرا کیا غیب کیا شہادت
یاں بھی شہود تیرا واں بھی شہود تیرا


[ترمیم] انسان اور خدا:۔

خدا کے تصور کے بعد تصوف کا دوسرا اہم مسئلہ انسان اور خدا کا تعلق ہے۔ انسان اور خدا میں چند صفات مشترک ہیں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان خدا کا شریک ہے۔ حقیقت میں انسان خدا کا شریک نہیں اس میں جو صفات ہیں وہ خدا کی بخشی ہوئی ہیں۔ وہ خدا کاعکس ہیں اس طرح انسان خدا کا شریک نہیں بلکہ اس کا محتاج ہے خدا نے اپنے اظہار کے لیے انسان کو تخلیق کیا ہے صوفیاءکا مقولہ ہے کہ ہمارا وجود حق تعالیٰ پر موقوف ہے اور اس کا ظہور ہمارے ذریعہ سے ہے۔

اس ہستی خراب سے کیا کام تھا ہمیں
اے نشہ ظہور یہ تیری ترنگ ہے

انسان اور کائنات میں خدا جلوہ دکھا رہا ہے گویا ساری کائنات آئینہ ہے۔ جس میں خدا کی ذات کا عکس پڑ رہا ہے۔ صوفیا کے نزدیک خدا تک پہنچنے کے لیے ہمیں اپنے دل کے آئینے کو صقیل کرنا چاہیے پھر اس میں خدا کا وجود نظرآئے گا۔

وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آسکے
آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے

آپ سے ہم گزر گئے کب سے
کیا ہے ظاہر میں گو سفر نہ کیا


[ترمیم] مسئلہ خیر و شر:۔

صوفیاءکے نزدیک خدا ہمہ تن خیر ہے اُن کا خیا ل ہے کہ اگر کسی چیز میں شر موجود ہے تو وہ ہماری ہی پیدا کردہ بدی ہے۔ خدا نے نیکی اور بدی کے لئے ہمیں آزاد چھوڑ دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جبر و قدر کا مسئلہ بھی سامنے آجاتا ہے کہ انسان اپنے اعمال کا کس حد تک ذمہ دار ہے اس سلسلے میں بھی دو گروہ ہیں ایک کاخیال ہے کہ انسان اپنے افعال و اعمال پر قادر ہے اور دوسرے کا خیال ہے کہ انسان محض مجبور ہے ۔صوفیاءکے ہاں یہ دو نوں مسلک موجو د ہیں،

تھا عالم جبر کیا بتادیں
کس طور سے زیست کر گئے ہم

اس امر میں بھی یہ بے اختیار بندہ ہے
ملا ہے درد اگر یاں کچھ اختیار مجھے


[ترمیم] عقل و عشق:۔

صوفیاءکے عقیدے کے مطابق عشق کے بغیر دنیا کا نظام نہیں چل سکتا دینوی اور دینی لحاظ سے عشق زندگی کی ضرورت ہے خدا تک پہنچنے کے واسطے صوفیاءجذبہ عشق کو اپنا رہنما بناتے ہیں۔ عشق کی حرارت کے بغیر کائنات کا نظام نہیں چل سکتا۔۔ خواجہ میر درد بھی عشق کی عظمت کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں درد عقل کی مصلحت اندیشیوں سے بخوبی واقف ہیں۔

باہر نہ ہو سکی تو قید خودی سے اپنی
اے عقل بے حقیقت دیکھا شعور تیرا

مے بند احکام عقل میں رہنا
یہ بھی اک نوع کی حماقت ہے

برنگ شعلہ غم عشق ہم سے روشن ہے
کہ بے قراری کو ہم برقرار رکھتے ہیں


[ترمیم] عظمت انسانی:۔

خواجہ میر درد کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اردو شاعری کو ایک اخلاقی لے بخشی ، اس سے پہلے اخلاقی مضامین کے بیان کے لیے کوئی مخصوص لہجہ نہ تھا۔ میر درد نے اپنی انفرادیت سے ایک ہموار اور نرم لہجہ اختیار کیا۔ بعد میں آنے والے شعراءنے بھی اس سلسلے میں ان کی تقلید کی۔ انسان کی عظمت کا گہرا احساس اور وسیع المشربی ان کے کلام میں جابجا جھلکتی ہے۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

باوجود یکہ پرو بال نہ تھے آدم کے
وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا

[ترمیم] مجموعی جائزہ

درد کے تصو ف کے بارے میں عبدالباری لکھتے ہیں،
” اکثر اشعار میں تصوف کے ایسے نازک مسائل اس طرح واضح کرکے بیان کئے ہیں کہ قال میں حال کا جلوہ نظرآتا ہے درد اور باقی شعراءکے کلام میں وہی فرق ہے جو اصل اور نقل میں ہوتا ہے۔“ بقول رام بابو سکسینہ،
”تصوف کو اُن سے بہتر کسی نے نہیں کہا۔ عرفان و تصوف کے پیچیدہ مسائل اور مشکل مضامین اس خوبصورتی اور صفائی سے بیان کئے ہیں کہ دل وجد کرتا ہے۔“



[ترمیم] درد کی عشقیہ شاعری (عشق مجازی

ڈاکٹر عبادت بریلوی کا کہنا ہے،
تصوف کے ساتھ ساتھ درد کی شاعری میں مجازی عشق کے تصورات بھی ہیں۔“
درد کی شاعر ی میں مجاز ی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے خلیل الرحمن اعظمی لکھتے ہیں، ” درد کی شاعر ی میں مجازی عشق کے جلوے نمایاں ہیں۔“


[ترمیم] دنیاوی محبوب کا جلوہ:۔

تصو ف کے ساتھ ساتھ درد کی شاعری میں دنیاوی محبوب کا جلوہ اور تذکرہ بھی ہے ۔ عشق حقیقی کے ساتھ ساتھ وہ عشق مجازی بھی کرتے ہیں۔ ان اشعار سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جس میں حقیقی محبوب کاکوئی رنگ نہیں صرف مجازی عشق کا جلوہ اس میں نظرآتا ہے۔

تو بن کہے گھر سے کل گیا تھا
اپنا بھی تو جی نکل گیا تھا

آنسو جو میرے انہوں نے پونچھے
کل دیکھ رقیب جل گیا تھا

شب ٹک جو ہوا تھا وہ ملائم
اپنا بھی تو جی پگھل گیا تھا


[ترمیم] خالص مجازی شاعری:۔

درد کی شاعری میں ایسے اشعار بہ کثرت ہیں جن کے تیور صاف بتاتے ہیں کہ ان اشعار کا محبوب حقیقی نہیں بلکہ وہ زندہ گوشت پوست کا انسان ہے جس مےں تمام تر محبوبانہ ادائیں موجود ہیں۔ان کے بہت سے اشعار خالص مجازی شاعری کی دلیل ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ درد صرف صوفی ہی نہ تھے بلکہ سینے میں نرم و گداز دل رکھتے تھے جو دھڑکتا اور محبوب کے ملائم ہونے پر پگھل ہی جاتا تھا۔

میں سامنے سے جو مسکرایا
ہونٹ اُس کا بھی درد ہل گیاتھا

ترچھی نظر وں سے دیکھنا ہر دم
یہ بھی اک بانکپن کا با نا ہے

دل تجھے کیوں ہے بے کلی ایسی
کون دیکھی ہے اچپلی ایس


[ترمیم] محبوب سے برتائو کا انداز:۔

درد کی شاعری میں محبوب سے برتائو کا بھی ایک خاص سلیقہ ہے۔ اس میں دھما چوکڑی کے بجائے سپردگی ملتی ہے۔ وہ محبوب کی بے وفائی سے پیار کرتے ہیں۔ اس پیار میں بھڑکنے سے زیادہ سلگنے کی کیفیت ہے وہ دل کو پھسلاتے ہیں اس کے تغافل کا جواز تلاش کر لیتے ہیں۔ ان کے ہاں جذباتی تہذیب کا اثر ملتا ہے اس لیے نفسانی کیفیات اور جذباتی واردات کا ذکر کرتے ہوئے وہ رکھ رکھائو ، توازن اور اعتدال سے دور نہیں ہوتے ۔

ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن
میں جو پہنچا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا

ہر گھڑی کان میں وہ کہتا ہے
کوئی اس بات سے آگاہ نہ ہو

جی کی جی میں رہی بات نہ ہونے پائی
ایک بھی ان سے ملاقات نہ ہونے پائی


[ترمیم] درد کا تصور محبوب:۔

درد کی شاعری میں جس محبوب کی شخصیت بنتی ہے وہ دنیاوی محبوب ہے۔ گوشت پوست کا انسان ہے، محض خیالی محبوب نہیں ہے۔ اس کی نشاندہی درد کے وہ اشعار کرتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں محبوب کا قرب حاصل رہا ہے۔ اس قرب کو حاصل کرکے انہوں نے محبوب کے حسن و سیرت کے نقوش لفظوں کے ذریعے ہم تک پہنچائے ہیں، محبوب کی محبت میں درد جذباتی نہیں ہوتے ،توازن اور اعتدال کا دامن یہاں بھی نہیں چھوڑتے ، وہ محبوب کی شخصیت پر مرتے ضرور ہیں مگر وقار اور تمکنت کے ساتھ ۔ درد کی شاعری میں محبوب کی تصویر زیادہ مکمل نہیں اس میں سراپا کا ذکر ہے مگر انتا نہیں ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ درد جس مسند عزت پر بیٹھے تھے اس قسم کی باتیں ان کے لیے معیوب تھیں۔ اس لیے وہ عشقیہ جذبات کا اظہار کھل کر نہیں کر تے اور رکھ رکھائو برقرار رکھتے ہیں۔

وہ نگاہیں جو چار ہوتی ہیں
برچھیاں ہیں کہ پار ہوتی ہیں

گزرا ہے بتا کون صبا آج ادھر سے
گلشن میں تیر ی پھولوں کی بو باس نہیں ہے

کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں میری
جی میں یہ کس کا تصور آگیا

رات مجلس میں ترے حسن کے شعلے کے حضور
شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا


[ترمیم] محبوب کا غم:۔

عشق میں صرف مسرت ہی نہیں غم کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ درد کی شاعری میں ان لمحات کی کیفیات موجود ہیں یہ محبوب کا غم بھی ہے اور زمانے کا بھی۔ محبوب کے دئیے ہوئے غم سے اذیت کی جگہ راحت پاتے ہیں۔

جان سے ہوگئے بدن خالی
جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا

ان لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سوسو طرح سے مر دیکھا

کیوں بھویں تانتے ہو بندہ نواز
سینہ کس وقت میں سپر نہ کیا


[ترمیم] مجاز و حقیقت کا امتزاج:۔

درد کی شاعری میں ایسے اشعار بکثرت ہیں جن سے ہم عشق حقیقی اور عشق مجازی دونوں مراد لے سکتے ہیں۔

مرا جی ہے جب تک تیری جستجو ہے
زبان جب تلک ہے یہی گفتگو ہے

تمنا ہے تیری اگر ہے تمنا
تیری آرزو ہے اگر آرزو ہے


[ترمیم] مجموعی جائزہ:۔

بقول ڈاکٹر سید عبداللہ :
”تصوف درد کی شاعری ک وہ حصہ ہے جس کی بنا پر انہوں نے اپنے زمانے سے خراج تحسین وصول کیا اور شعرائے عصر میں بلند جگہ پائی اور حقیقت یہ ہے کہ اگر درد محض شاعر ہوتے (اور صوفی نہ ہوتے ) تب بھی اس قسم کے کلام کی بنا پرانہیں اپنے زمانے کے ممتاز شاعروں کی صف میں جگہ مل جاتی ۔ اس بات کی تردید نہیں کی جاسکتی کہ اُن کے مجازی اشعار میں بھی ایک وقار ، ایک طرح کی پاس داری اور ایک رکھ رکھائو موجود ہے جس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ صوفیانہ تربیت شاعر کوبے راہ روی سے روک رہی ہے۔“


[ترمیم] درد کی شاعری کی عام خصوصات

[ترمیم] حکیمانہ انداز:۔

تصوف کے ساتھ ساتھ درد نے حکمت کے موتی بھی بکھیرے ہیں ۔ زندگی کی حقیقتوں کا بیان بھی ہے۔ اور کائنات کے رموز کا بھی موت کی کلفتوں اور کائنات کی اور زندگی کی ناپائیداری کا ماتم بھی ان کی شاعری میں موجود ہے۔ان کے ہاں انسانی عظمت کے ساتھ ساتھ اخلاقی مضامین بھی ملتے ہیں۔ کیونکہ وہ دور اخلاقی اقدر کی شکست و ریخت کا دور تھا۔ یوں درد نے اس دور میں انسان کو نیکی کی تلقین کی او ر اُسے اپنی عظمت کا احساس دلایا۔

درد دل کے واسطے پیدا کےا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھی کروبیاں

باوجود یکہ پر و بال نہ تھے آدم کے
واں یہ پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا

وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ دیکھا جو سنا افسانہ تھا


[ترمیم] غم اور حزن:۔

میر درد ، سود ا کا دور ایک ایسا دور ہے جس میں شعراءکو حالات نے بہت زیادہ متاثر کیا۔اُس دور میں ہونے والی تباہی اور بربادی نے دلوں میں غم اور مایوسی کے احساس کو جلا بخشی ۔ یوں درد کی شاعری میں غم و حزن اور یاس و ناامیدی کے مضامین بھی بکثرت ہیں ان کی قلب و نظر پر حسرتوں کی حکمرانی ہے۔ اور گریہ وزاری اس کی زندگی کا جزو بن گیا ہے۔

دردکا حال کچھ نہ پوچھو تم
وہی رونا ہے نت وہی غم ہے

سینہ دل حسرتوں سے چھا گیا
بس ہجوم یاس جی گھبرا گیا

کچھ دل ہی باغ میں نہیں تنہا شکستہ دل
ہر غنچہ دیکھتا ہوں تو ہے گاہ شکستہ دل


[ترمیم] حسن زبان وبیان:۔

زبان و بیان ، تشبیہات و استعارات سب شاعری کی جان ہیں۔ لیکن ان کا استعمال توازن سے ہو تو شاعری اور بھی پر لطف ہو جاتی ہے۔ درد نے متصوفانہ خیالات کو خوبصورت لہجے اور زبان کے ساتھ ادا کرکے اپنی استادی کا ثبوت دیا ہے۔ درد کی شاعری میں الفاظ کا طنطنہ بھی ہے اور تراکیب کی چستی بھی ایسے اشعار بھی ہیں جن میں تراکیب کا حسن اور شکوہ شعر کی ظاہر ی شکل کو دلکشی اور معنویت بخشتی ہے ۔

کون سا دل ہے کہ جس میں آہ
خانہ آباد تو نے گھر نہ کیا

جگ میں آکر ادھر اُدھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

دل کس کی چشم مست کا سرشار ہوگیا
کس کی نظر لگی جو یہ بیمار ہوگیا

اُن نے قصداً بھی میرے نالے کو
نہ سنا ہو گا گر سنا ہوگا


[ترمیم] دنیا کی بے ثباتی:۔

درد کا زمانہ ایک پر آشوب اور ہنگامی دور تھا جس میں قتل و غارت گری عام تھی ۔ دہلی کا سہاگ کئی مرتبہ لوٹا گیا۔ کئی بادشاہوں کے تخت چھین لیے گئے اوروہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گئے۔ اس قسم کے حالات نے عام اور خاص کے اندر زندگی کی بے ثباتی کے احساس کو فروغ دیا۔ اس دور کے شعراءکے اندر یہ احساس کافی حد تک اس دور کے حالات کی دین ہے ۔ درد کے ہاں بھی دنیا کی بے ثباتی کا احساس جابجا ملتا ہے۔

نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہی اعتبار
کس بات پر چمن ہوس رنگ و بوکریں

کیاہمیں کام ان گلوں سے اے صبا!
اک دم آئے ادھر ، ادھر چلے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تواس جینے کے ہاتھوں مرچلے

شمع کی مانند ہم اس بزم میں
چشم نم آئے تھے دامن ترچلے


[ترمیم] مجموعی جائزہ:۔

مجنوں گورکھ پوری فرماتے ہیں کہ
” کہیں دبی ہوئی اور کہیں اعلانیہ ، کبھی زیر لب اور کبھی کھلے ہونٹوں شدید طنز کے ساتھ زمانے کی شکایت اور زندگی سے بیزاری کی علامتیں ملتی ہیں یعنی اپنے زمانے کے حالات سے ناآسودگی کا اظہار کرتے ہیں۔“
ڈاکٹر ابوللیث صدیقی فرماتے ہیں،
”اس دور کی سےاسی اور ملکی حالات کو استعاروں اور کنایوں میں ایسی خوبصورتی سے ادا کیا ہے کہ غزل کا داخلی رنگ بھی قائم رہتا ہے اور یہ ایک ترجمانی بھی ہو گئی ہے۔“

Static Wikipedia (no images)

aa - ab - af - ak - als - am - an - ang - ar - arc - as - ast - av - ay - az - ba - bar - bat_smg - bcl - be - be_x_old - bg - bh - bi - bm - bn - bo - bpy - br - bs - bug - bxr - ca - cbk_zam - cdo - ce - ceb - ch - cho - chr - chy - co - cr - crh - cs - csb - cu - cv - cy - da - de - diq - dsb - dv - dz - ee - el - eml - en - eo - es - et - eu - ext - fa - ff - fi - fiu_vro - fj - fo - fr - frp - fur - fy - ga - gan - gd - gl - glk - gn - got - gu - gv - ha - hak - haw - he - hi - hif - ho - hr - hsb - ht - hu - hy - hz - ia - id - ie - ig - ii - ik - ilo - io - is - it - iu - ja - jbo - jv - ka - kaa - kab - kg - ki - kj - kk - kl - km - kn - ko - kr - ks - ksh - ku - kv - kw - ky - la - lad - lb - lbe - lg - li - lij - lmo - ln - lo - lt - lv - map_bms - mdf - mg - mh - mi - mk - ml - mn - mo - mr - mt - mus - my - myv - mzn - na - nah - nap - nds - nds_nl - ne - new - ng - nl - nn - no - nov - nrm - nv - ny - oc - om - or - os - pa - pag - pam - pap - pdc - pi - pih - pl - pms - ps - pt - qu - quality - rm - rmy - rn - ro - roa_rup - roa_tara - ru - rw - sa - sah - sc - scn - sco - sd - se - sg - sh - si - simple - sk - sl - sm - sn - so - sr - srn - ss - st - stq - su - sv - sw - szl - ta - te - tet - tg - th - ti - tk - tl - tlh - tn - to - tpi - tr - ts - tt - tum - tw - ty - udm - ug - uk - ur - uz - ve - vec - vi - vls - vo - wa - war - wo - wuu - xal - xh - yi - yo - za - zea - zh - zh_classical - zh_min_nan - zh_yue - zu -

Static Wikipedia 2007 (no images)

aa - ab - af - ak - als - am - an - ang - ar - arc - as - ast - av - ay - az - ba - bar - bat_smg - bcl - be - be_x_old - bg - bh - bi - bm - bn - bo - bpy - br - bs - bug - bxr - ca - cbk_zam - cdo - ce - ceb - ch - cho - chr - chy - co - cr - crh - cs - csb - cu - cv - cy - da - de - diq - dsb - dv - dz - ee - el - eml - en - eo - es - et - eu - ext - fa - ff - fi - fiu_vro - fj - fo - fr - frp - fur - fy - ga - gan - gd - gl - glk - gn - got - gu - gv - ha - hak - haw - he - hi - hif - ho - hr - hsb - ht - hu - hy - hz - ia - id - ie - ig - ii - ik - ilo - io - is - it - iu - ja - jbo - jv - ka - kaa - kab - kg - ki - kj - kk - kl - km - kn - ko - kr - ks - ksh - ku - kv - kw - ky - la - lad - lb - lbe - lg - li - lij - lmo - ln - lo - lt - lv - map_bms - mdf - mg - mh - mi - mk - ml - mn - mo - mr - mt - mus - my - myv - mzn - na - nah - nap - nds - nds_nl - ne - new - ng - nl - nn - no - nov - nrm - nv - ny - oc - om - or - os - pa - pag - pam - pap - pdc - pi - pih - pl - pms - ps - pt - qu - quality - rm - rmy - rn - ro - roa_rup - roa_tara - ru - rw - sa - sah - sc - scn - sco - sd - se - sg - sh - si - simple - sk - sl - sm - sn - so - sr - srn - ss - st - stq - su - sv - sw - szl - ta - te - tet - tg - th - ti - tk - tl - tlh - tn - to - tpi - tr - ts - tt - tum - tw - ty - udm - ug - uk - ur - uz - ve - vec - vi - vls - vo - wa - war - wo - wuu - xal - xh - yi - yo - za - zea - zh - zh_classical - zh_min_nan - zh_yue - zu -

Static Wikipedia 2006 (no images)

aa - ab - af - ak - als - am - an - ang - ar - arc - as - ast - av - ay - az - ba - bar - bat_smg - bcl - be - be_x_old - bg - bh - bi - bm - bn - bo - bpy - br - bs - bug - bxr - ca - cbk_zam - cdo - ce - ceb - ch - cho - chr - chy - co - cr - crh - cs - csb - cu - cv - cy - da - de - diq - dsb - dv - dz - ee - el - eml - eo - es - et - eu - ext - fa - ff - fi - fiu_vro - fj - fo - fr - frp - fur - fy - ga - gan - gd - gl - glk - gn - got - gu - gv - ha - hak - haw - he - hi - hif - ho - hr - hsb - ht - hu - hy - hz - ia - id - ie - ig - ii - ik - ilo - io - is - it - iu - ja - jbo - jv - ka - kaa - kab - kg - ki - kj - kk - kl - km - kn - ko - kr - ks - ksh - ku - kv - kw - ky - la - lad - lb - lbe - lg - li - lij - lmo - ln - lo - lt - lv - map_bms - mdf - mg - mh - mi - mk - ml - mn - mo - mr - mt - mus - my - myv - mzn - na - nah - nap - nds - nds_nl - ne - new - ng - nl - nn - no - nov - nrm - nv - ny - oc - om - or - os - pa - pag - pam - pap - pdc - pi - pih - pl - pms - ps - pt - qu - quality - rm - rmy - rn - ro - roa_rup - roa_tara - ru - rw - sa - sah - sc - scn - sco - sd - se - sg - sh - si - simple - sk - sl - sm - sn - so - sr - srn - ss - st - stq - su - sv - sw - szl - ta - te - tet - tg - th - ti - tk - tl - tlh - tn - to - tpi - tr - ts - tt - tum - tw - ty - udm - ug - uk - ur - uz - ve - vec - vi - vls - vo - wa - war - wo - wuu - xal - xh - yi - yo - za - zea - zh - zh_classical - zh_min_nan - zh_yue - zu

Static Wikipedia February 2008 (no images)

aa - ab - af - ak - als - am - an - ang - ar - arc - as - ast - av - ay - az - ba - bar - bat_smg - bcl - be - be_x_old - bg - bh - bi - bm - bn - bo - bpy - br - bs - bug - bxr - ca - cbk_zam - cdo - ce - ceb - ch - cho - chr - chy - co - cr - crh - cs - csb - cu - cv - cy - da - de - diq - dsb - dv - dz - ee - el - eml - en - eo - es - et - eu - ext - fa - ff - fi - fiu_vro - fj - fo - fr - frp - fur - fy - ga - gan - gd - gl - glk - gn - got - gu - gv - ha - hak - haw - he - hi - hif - ho - hr - hsb - ht - hu - hy - hz - ia - id - ie - ig - ii - ik - ilo - io - is - it - iu - ja - jbo - jv - ka - kaa - kab - kg - ki - kj - kk - kl - km - kn - ko - kr - ks - ksh - ku - kv - kw - ky - la - lad - lb - lbe - lg - li - lij - lmo - ln - lo - lt - lv - map_bms - mdf - mg - mh - mi - mk - ml - mn - mo - mr - mt - mus - my - myv - mzn - na - nah - nap - nds - nds_nl - ne - new - ng - nl - nn - no - nov - nrm - nv - ny - oc - om - or - os - pa - pag - pam - pap - pdc - pi - pih - pl - pms - ps - pt - qu - quality - rm - rmy - rn - ro - roa_rup - roa_tara - ru - rw - sa - sah - sc - scn - sco - sd - se - sg - sh - si - simple - sk - sl - sm - sn - so - sr - srn - ss - st - stq - su - sv - sw - szl - ta - te - tet - tg - th - ti - tk - tl - tlh - tn - to - tpi - tr - ts - tt - tum - tw - ty - udm - ug - uk - ur - uz - ve - vec - vi - vls - vo - wa - war - wo - wuu - xal - xh - yi - yo - za - zea - zh - zh_classical - zh_min_nan - zh_yue - zu