ریاست گجرات (بھارت) میں 2002ء کے فسادات
وکیپیڈیا سے
گجرات (ظلم و فساد)، ہندوستان؛ 2002ء | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
2002ء احمد آباد کا ایک منظر جب گھروں کو جلا کے دن میں دھواں اور رات میں اجالے کیۓ گئے |
|||||||
|
|||||||
متحارب | |||||||
مسلمان | ہندو | ||||||
قائدین | |||||||
گجراتی مسلمان | ہندو (درپردہ ریاست) | ||||||
قوت | |||||||
گھریلو اشیاء، جھاڑو، برتن اور جو ہاتھ میں ہو | نیزے، تلواریں، پیٹرول اور آتشی ہتھیار تک | ||||||
نقصانات | |||||||
2500 ہلاک (قتل عام)؛ یتیموں، بیواؤں، بےگھروں اور مہاجرین کی کھیپ تیار | 254 غنڈے اور دہشتگرد ہلاک |
بھارت کی ریاست گجرات میں فروری اور مارچ 2002ء میں ہونے والے یہ فرقہ وارانہ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب ریل گاڑی میں آگ لگنے سے 59 انتہاپسند ہندو ہلاک ہو گئے۔ اس کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا، اور گجرات میں مسلمانوں کے خلاف یہ فسادات گجرات کی ریاستی حکومت کی درپردہ اجازت پر کیے گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ مسلمانوں کی نسل کشی تھی۔ اس میں تقریباً 2500 مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا یا زندہ جلا دیا گیا۔ سینکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئ۔ ہزاروں مسلمان بے گھر ہوئے۔
ان فسادات کو روکنے کے لیے پولیس نے کوئ کردار ادا نہ کیا۔ بلکہ گجرات کے وزیر اعلی مودی نے اس قاتل و غارت کی سرپرستی کی۔ اس وقت کی بھارت کی وفاقی حکومت، جو بی۔جے۔پی۔ پارٹی کی تھی، اس نے بھی گجرات میں فسادات روکنے کی کوشش نہیں کی۔
اب تک کسی ہندو کے خلاف عدالتی کاروائ نہیں کی گئ۔ یورپی یونین نے اس نسل کشی پر کھلے عام احتجاج کرنے سے گریز کیا، اور یہی طرز عمل امریکہ کا بھی رہا۔ اب بھی مسلمان اس ریاست میں مہاجروں کی طرح رہ رہے ہیں، اور دوسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے ہیں۔