جہاد
وکیپیڈیا سے
خدا کی راہ میں جانی و مالی قربانی سے دریغ نہ کرنا ۔ قیام امن اور مظلوم کو ظالم کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے تلوار اٹھانا۔ یا اس مقصد کے حصول کے لیے جنگ کے کسی متعلقہ شعبے میں خلوص نیت سے خدمات انجام دینا جہاد کہلاتا ہے۔ قرآن مجیدمیں جہاد پر خاص طور پر زور دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اسلام کے بنیادی متعقدات میں سے سمجھا جاتا ہے۔ اور اس کو اسلام کا چھٹا رکن بھی کہتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
ترجمہ: خدا کی راہ میں اس طرح جہادکرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔
قرآن میں جہاد کے متعلق جو آیات ہین وہ مدنی ہیں اور یہیں آکر مسلمانوں کو کفار کے مقابلے میں تلوار اٹھانے کا حکم ہوا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے قریش اور مسلمانوں میں بدر کے مقام پر لڑائی ہوئی جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلامی فوجیں دوسرے ملکوں میں پھیل گئیں۔ مسلمان جس ملک میں جاتے وہاں کے لوگوں کے سامنے تین مطالبات پیش کرتے
1۔ مسلمان ہوجاؤ تو تم ہمارے بھائی بن جاؤ گے اور ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی امتیاز نہیں رہے گا۔
2۔ جزیہ اور خراج دینا قبول کرو۔
3۔ اگر وہ دونوں باتوں میں سے کوئی بات منظور نہیں تو میدان جنگ میں آؤ۔
جہاد میں شرکت کو مسلمان بہت بڑی عزت خیال کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں جو مسلمان اپنی جان دے وہ شہید کہلاتا ہے۔
جہاد کی اور بھی کئی قسمیں ہیں۔ ایک حدیث کے مطابق جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا بہت بڑا جہاد ہے۔ اسی طرح اپنے نفس کے ستھ جہاد کرنے کو جہاد اکبر کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہاتھ ، زبان ، قلم سے بھی جہاد ہو سکتا ہے۔ جہاد کے متعلق حکم یہ ہے کہ جب خلیفہ یا امام جہاد کے لیے پکارے تو کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی عذر کے بغیر اس سے پہلوتہی کرے۔ اسلام میں جہاد کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک، اللہ تعالی کی راہ میں کسی بھی نوعیت کی جدوجہد کرنے کے مفہوم میں اور دوسرے، اللہ تعالی کی راہ میں جنگ کرنے کے لیے، جسے قرآن کی الفاظ میں قتال فی سبیل اللہ کہا جاتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں اصل مقصد اللہ تعالی ہی کی رضا حاصل کرنا ہوتا ہے۔
جہاد کی دوسری قسم کے لیے قرآن مجید نے درج ذیل دو صورتیں بیان کی ہیں:
رسول کے اتمام حجت کے بعد منكرين حق کے خلاف ظلم و عدوان (persecution) کے خلاف
پہلی صورت کا تعلق شریعت سے نہیں ہے۔ یہ اللہ کے رسولوں کے ساتھ خاص ہے۔ جو رسول صلّي اللہ عليہ وسلّم اور ان کے صحابہ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے۔
دوسری صورت اسلامی شریعت کا ابدی حکم ہے۔ قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو خانقاہیں، گرجے، معبد اور مسجدیں، جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے، سب ڈھا دیے جاتے۔ (الحج، 40:22)
البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جہاد کی ان بنیادی شرائط کو پورا کیا جائے جن کا حکم، اسلامی ریاست کو، قرآن کے دوسرے مقامات پر دیا گیا ہے۔ ان بنیادی شرائط کو پورا نہ کرنے کی صورت میں جہاد انسانیت کے لیے محض فتنہ و فساد کا باعث بنتا ہے، جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ جہاد کی بنیادی شرائط میں درج ذیل شامل ہیں:
جہاد صرف اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عوام الناس کو فردا فردا، جتھوں، یا تنظیمیوں کی صورت میں جہاد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔
اللہ تعالی نے مدد کا وعدہ صرف اسی صورت میں کیا ہے جب مسلمان ریاست کی حربی قوت مخالف سے کم از کم نصف ہو، یا دوسرے لفظوں میں، دو ایک (2:1) کی نسبت ہو۔