خالد بن ولید
وکیپیڈیا سے
خالد بن ولید (Khalid bin Walid) محمد صلعم کے سپہ سالار اور ابتدائی عرب تاریخ کے بہترین سپاہی تھے۔ محمد صلعم کی وفات کے بعد انھوں نے مدینے کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کو کچل دیا۔ اسکے بعد خالد بن ولید نے ایرانی اور باذنطینی سلطنتوں کو شکست دیکر نہ صرف مدینہ کی چھوٹی سی ریاست کو ایک عالمی طاقت میں تبدیل کردیا۔ بلکہ پہلے درجہ کے عالمی فاتحین میں بھی اپنے آپکو شامل کرالیا۔
فہرست |
[ترمیم] موازنہ
خالد بن ولید نے 80 کے قریب جنگوں میں حصہ لیا اور کسی میں بھی شکست نہیں کھائی۔ وہ پیدائشی جنگجو سپاہی تھے۔ انہوں نے عربوں کے لیۓ جن علاقوں کو فتح کیا وہ اب بھی ان کے پاس ہیں۔ جبکہ باقی عالمی فاتحین نپولین، چنگیز خان، تیمور اور ہٹلر نے جو علاقے فتح کیۓ وہ ان کی زندگی میں ہی یا بعد میں ان سے چھن گئے۔
[ترمیم] زندگی
خالد بن ولید 592 میں مکہ میں قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو مخزوم کے سردار ولید بن مغیرہ کے ہاں پیدا ہوۓ۔ بنی مخزوم کی وجہ شہرت جنگ و جدل تھا۔
وہ شروع میں مسلمانوں کے مخالفین میں سے تھے اور احد کی جنگ کا پانسا مسلمانوں کے خلاف پلٹنے میں ان کا اہم کردار تھا۔ صلح حدیبیہ کے بعد مدینہ میں محمد کی خدمت میں حاضر ہوۓ اسلام قبول کیا اور بقیہ زندگی اسلام کے لیۓ وقف کر دی۔
محمد صلعم نے جنگ موتہ ميں انکی بے مثل بہادری پر انھیں سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب دیا۔
محمد صلعم، ابوبکر اور عمر عرب کے سیاسی جینیس تھے۔ انہوں نے چھوٹے چھوٹے عرب قبیلوں کو ایک جتھے میں بدل دیا۔ ان کی توانائیاں جو انکی قبائلی جنگوں کی نذر ہو رہی تھیں انہیں متحد کیا اور انہیں ایک سمت دیکر ایک ایسے زبردست صحرائی طوفان میں تبدیل کر دیا جس نے جلد ہی پورے مشرق وسطی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیۓ اس علاقے اور دنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دی اور اس صحرائی طوفان کا عنوان تھے خالد بن ولید۔
[ترمیم] مشہور جنگیں
- احد
- مکہ
- طائف
- موتہ
- دومتہ الجندل
- یرموک
- یمامہ
- اجنادین
- حلب
[ترمیم] نظم و ضبط
مسلمانوں میں یہ تاثر عام پیدا ہو گیا تھا کہ خالد بن ولید ہر جنگ کی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ اس پر خلیفہ عمر نے انھیں سپہ سالاری کے درجے سے ہٹا دیا کہ فتح اللہ تعالی کی مدد سے ہوتی ہے اور امیر کی اطاعت خالد بن ولید کے کردار کا اہم حصہ تھا۔ انھوں نے اسے بخوشی قبول کیا۔
[ترمیم] وفات
خالد بن ولید کو اپنی فوتگی سے پہلے اس چیز کا بہت افسوس تھا کہ وہ میدان جنگ کے بجاۓ بستر پر اپنی جان دے رہے ہیں۔ وہ 642 میں شام کے شہر حمص میں وفات پاگۓ۔ ان کی قبر مسجد جامعتہ خالد بن ولید کا حصہ ہے۔ اپنی وفات پر انھوں نے خلیفہ عمر کے ہاتھوں اپنی جائیداد کی تقسیم کی وصیت کی۔