بسنت
وکیپیڈیا سے
بسنت (Basant) موسم بہار میں منائے جانے والا ایک تہوار ہے۔ سردیوں کا موسم ختم ہو رہا ہوتا ہے لوگ جو موسم کی شدت کی وجہ سے گھروں میں بند تھے۔ درجہ حرارت مناسب ہونے پر گھروں سے باہر آتے ہیں اور خزاں اور سرما کی بے رنگی اور بدمزگی جو انکے مزاج اور آنکھوں پر چھائی ہوئی ہے اسے باہر آکر تیز رنگوں والے کپڑے پہن کر باہر گھوم پھر کر یا پتنگ بازی کر کے طبیعت کے اس زنگ کو اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شوق کا زیادہ اظہار پتنگ بازی کی شکل میں نکلتا ہے۔ سپاٹ آسمان اچانک رنگوں سے سج جاتا ہے۔ فطرت انگڑائیاں لیتی ہے اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ خاکی رنگ کی زمین سرسوں کے پیلے اور ہرے رنگ کی وجہ سے رنگین ہو جاتی ہے۔ بہار کے دوسرے پھول اور پرندوں کی چہچہاہٹ خوشیوں کے پیغام لاتی ہیں کہ یہ بسنت ہے یہ جشن بہاراں ہے۔ فطرت کے اس رنگوں بھرے اور خوشیوں بھرے جشن میں انسان بھی شریک ہو جاتے ہیں۔
[ترمیم] مخالف نقطہ نظر
بسنت کے مخالفین اس تہوار کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں گستاخی کرنے والے ایک شخص سے جوڑتے ہیں جس کا ذکر ایک ہندو مؤرخ نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔
اس مکتبۂ فکر کے مطابق بسنت ہندوؤں اور سکھوں کا مشترکہ تہوار ہے۔ ایک ہندو مؤرخ بی ایس نجار نے اپنی کتاب "Punjab under the later Mughals" میں لکھا ہے کہ
"حقیقت رائے باگھ مل پوری سیالکوٹ کے ایک ہندو کھتری کا اکلوتا لڑکا تھا۔ حقیقت رائے نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں انتہائی گستاخانہ اور نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ اس جرم پر حقیقت رائے کو گرفتار کرکے عدالتی کارروائی کے لئے لاہور بھیجا گیا جہاں اسے سزائے موت کا حکم سنادیا گیا۔ اس واقعے سے پنجاب کے ہندوؤں کو شدید دھچکا لگا اور کچھ ہندو افسر سفارش کے لئے اُس وقت کے پنجاب کے گورنر ذکریا خان (1707ء تا 1759ء) کے پاس گئے کہ حقیقت رائے کو معاف کردیا جائے لیکن ذکریا خان نے کوئی سفارش نہ سنی اور سزائے موت کے حکم پر نظر ثانی کرنے سے انکار کردیا۔ لہٰذا اس گستاخ رسول کی گردن اڑادی گئی۔ اس پر ہندوؤں میں صف ماتم بچھ گئی۔ ہندوؤں نے حقیقت رائے کی ایک مڑہی (یادگار) قائم کی جو کوٹ خواجہ سعید (کھوجے شاہی) لاہور میں واقع ہے اور اب یہ جگہ "باوے دی مڑہی" کے نام سے مشہور ہے۔ اس مقام پر ایک ہندو رئیس کالو رام نے حقیقت کی یاد میں اس کی موت کے دن کو ایک میلے کی شکل دی اور ہر سال بہار کے موسم میں بسنت میلے کا آغاز کیا۔ پنجاب کا بسنت میلہ اسی حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔" [1]
یہ مکتبۂ فکر بسنت کو ایک موسمی نہیں بلکہ مذہبی تہوار سمجھتا ہے چونکہ اس کا ذکر پرانی ہندو مذہبی کتب میں آتا ہے۔ پرانی کتابوں کے مطابق پتنگ پر دو آنکھیں یا دوسرے شکلیں بنا کر آسمان سے نازل ہونے والی بلائیں دور کی جاتی ھیں۔ یہ خیالات جنوب مشرقی ایشیاء کے کچھ ممالک میں بھی پائے جاتے ھیں جیسے سنگاپور، تھائی لینڈ وغیرہ۔
بسنت پر دوسرا بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ بسنت منانےکے نتیجے میں بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ھیں جس کی وجہ پتنگ کی ڈور کا گلے پر پھر جانا ہے۔ کچھ بچے پتنگ بازی کرتے ہوئے چھت سے بھی گر جاتے ھیں اور کچھ ان گولیوں کا نشانہ بن جاتے ھیں جو پتنگ باز چلاتے ھیں۔ انہی وجوہات کی بناء پر ہر سال بسنت کے موقع پر پاکستانی عدالتوں اس تہوار کے خلاف مقدمات درج کئے جاتے ہیں اور کبھی کبھار تو پتنگ بازی پر پابندی بھی لگا دی جاتی ہے۔
[ترمیم] حوالہ جات
- ^ Punjab under the later Mughals مصنف بی ایس نجار صفحہ نمبر 279