حج کا طریقہ
وکیپیڈیا سے
آٹھ ذی الحجہ سےحج کےارکان شروع ھوجاتےہیں، آٹھویں ذی الحجہ کا سورج طلوع ھونیکےبعد احرام کی حالت میں مکہ مکرمہ سےمنی کےلئےروانہ ھونا ہے۔ حج کا احرام حدود حرم میں کسی بھی جگہ سےباندھا جا سکتا ہے، اپنی قیام گاہ پر بھی باندھ سکتےہیں۔نفل طواف کرکےسر ڈھانک کر دو رکعت واجب الطواف پڑھیں۔ اسکےبعد سر کھول کےاحرام کی نیت اسطرح کریں۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُرِیدُ الحَجَّ فَیَسِّرہُ لِی وَ تَقَبَّلہُ مِنِّی
لَبیکَ اَللّٰھُمَّ لبّیک لبَّیک لا شَرِیکَ لَکَ لبَّّیک، اِنَّ الحَمدَ وَ النِّعمۃ لَکَ وَ المُلکَ، لا شَرِیکَ لَکَ نیت کرکےاور تلبیہ پڑھ کےآپ محرم ہوگئےاور احرام کی وہ ساری پابندیاں آپ پر عائد ہوگئیں جو عمرہ کےاحرام کےوقت تھیں۔ منی کےلئےروانگی :آٹھویں تاریخ کو آپ نےحج کا احرام باندھ لیا، اب آج ہی آپکو منی جانا ہی، منی میں کوئی خاص عمل آپ کو نہیں کرناہے، بس ظہر، عصر، مغرب، عشاءاور ٩، ذی الحجہ کی فجر کی نماز منی میں اد ا کرنا ہے۔ نویں ذی الحجہ کو عرفات کےلئےروانگی : نویں ذی الحجہ کی صبح سورج نکلنےکےبعدمنی سےعرفات جانا ہے، آج مغفرت کا دن ہے، آج یوم عرفہ ہے، مسئلہ کی رُو سےمیدان عرفات میں ٩، ذی الحجہ کی دو پہر سے٠١، ذی الحجہ کی صبح صادق تک کچھ دیر کا قیام حج کا رکن اعظم ہے، جس کےبغیر حج ادا نہیں ہوتا۔ ٩، ذی الحجہ کو فجر کی نماز کےبعد تکبیرات تشریق شروع ہو جاتی ہیں، منٰی اور عرفات دونوں جگہ فرض نمازوں کےبعد ایک بار بلند آواز سےتکبیر تشریق پڑھیں: اَللّٰہُ اکبَر اَللّٰہُ اکبَر، لااِلٰہَ الاّ اللّٰہُ وَ اَللّٰہُ اکبَر، اَللّٰہُ اکبَر وَ لِلّٰہِ الحَمد۔ ٩، ذی الحجہ کی فجرسے٠١، ذی الحجہ تک فرض نماز کےبعدپہلےتکبیر تشریق اور پھر * تلبیہ پڑھیں، چونکہ تلبیہ دسویں تاریخ کی رمی کےساتھ ختم ہو جاتا ہےاس لئےباقی ایام میں (یعنی ٣١، ذی الحجہ کی عصر تک) صرف تکبیرتشریق پڑھیں۔ فی زماننا بہتر یہی ہےکہ اپنےاپنےخیمےمیں روزانہ کی طرح ظہر اور عصر کی نماز اپنےاپنےوقت میں پڑھی جائی۔ وقوفِ عرفات کا وقت زوالِ آفتاب سےشروع ہو جاتا ہے۔اس لئےظہر کی نماز سےفارغ ہو کر وقوف میں مصروف ہو جائیں۔ سایہ کےبجائےدھوپ میں وقوف کرنا بہتر ہے، ہاں اگر کسی ضرر یا بیماری کا اندیشہ ہو تو سایہ میں اور خیمہ میں بھی وقوف کیا جا سکتا ہے۔ ہوسکےتو قبلہ رُخ کھڑے ہوکر پورا وقت یعنی مغرب تک وقوف کیجیئے۔ اگر پورا وقت کھڑے رہنا مشکل ہو تو جتنی دیر کھڑے رہنےکی طاقت ہو، کھڑے رہیے۔ ضرورت ہو تو وقوف کےوقت بیٹھنا بلکہ لیٹنا بھی جائز ہے۔ آخرآفتاب غروب ہوا، آج حکم ہےمغرب کی نماز عشا ءکی نماز کےساتھ مزدلفہ میں پڑھی جائی۔ عرفات سےمزدلفہ کےلئےروانگی اب لاکھوں انسانوں کی یہ بستی یہاں سےتین میل دور منتقل ہو جائیگی، لیجئےمزدلفہ پہونچ گئے۔ بتلایا گیا ہےکہ مزدلفہ میں رات ٹھہرنےوالےحجاج کےحق میں یہ رات شب قدر سےبھی افضل ہےاس لئے اس رات کی عظمت اور قدرو قیمت کو یاد رکھیئے۔ یہ رات جاگ کر گزاری جائے۔ عبادت، ذکر، استغفار، توبہ اور درود شریف میں مشغول رہیں، نفل پڑھیں۔ لیٹنا یا سونا منع نہیں ہے، فجر کی نماز صبح صادق ہو تےہی اندھیرےمیں پڑھیں۔تاکہ صبح صادق کےبعد تھوڑی دیرمزدلفہ میں وقوف واجب ہے،اس پر بھی عمل ہو جائیگا۔ مزدلفہ کےوقوف کا وقت صبح صادق کےبعد شروع ہوتا ہےاور سورج نکلنےتک رہتا ہے، مزدلفہ سےمنی روانگی سےپہلےیاد رکھنا چاہیےکہ آپکو منی جا کر شیطان کو کنکریاں مارنا ہےاس کا انتظام یہاں مزدلفہ سےکرنا ہے، کم از کم ستر کنکریاں ایک تھیلی میں رکھ لیں، جب٠١، ذی الحجہ کی صبح کا اجالا آسمان پر پھیلنےلگتا ہےتو انسانوں کا یہ سمندر ایک بار پھر منیٰ کی طرف کوچ کرتا ہے۔ منی میں قیام اور رمی جمار: دسویں تاریخ کو صرف جمرہ عقبہ کی رمی کرنا ہےاس پر پہلی کنکری پھینکتےہی تلبیہ پڑھنا موقوف ہو جاتا ہےلہذا اسکےبعد تلبیہ نہ پڑھیں۔ جمرہ عقبہ کی رمی کا مسنون وقت آفتا ب طلوع ہونےسےشروع ہو کر زوال تک ہے۔ مباح وقت بلا کراہت مغرب تک ہےاور کراہت کےساتھ مغرب سےصبح صادق سےپہلےتک رہتا ہے۔ رمی کےساتھ تکبیر کہنا مسنون ہے، جب کنکریاں ماریں تو یہ دعا پڑھیں : بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر، رَغمَاً للشَّیطَانِ وَ رِضًی للرَّحمَان قربانی :اگر ٓاپ حج تمتع کرتے ہیں تو اللہ تعالی نےآپکو حج تمتع کی نعمت سےسرفراز فرمایا اسکےشکرانےکےطور پر قربانی کرنا واجب ہے۔ رمی کےبعد پہلےقربانی کیجئے پھر حلق یا قصر کرواکر احرام کھول دیجئے۔ اب آپ سِلےہوئےکپڑے پہن سکتےہیں، خوشبو لگا سکتےہیں اور احرام کی حالت میں ممنوع جملہ امور انجام دے سکتےہیں مگر ابھی بھی آپکا اپنی بیوی سےہم بستر ی کرنا جائز نہیں ہے۔جب آپ طوافِ زیارت ادا کرلینگےتو احرام کی مابقیہ ایک پابندی یعنی عورتوں سےہم بستری بھی حلال ہوجائیگی۔ طواف زیارت :یہ طواف حج کا رکن اور فرض ہے،یہ طواف عام طور پر قربانی اور حجامت کےبعد سِلےہوئےکپڑوں میں کیا جاتا ہے، بعض لوگ سوچ میں پڑ جاتےہیں کہ سلےہوئےکپڑوں میں طواف اور سعی کیسےکی جائے؟ تو خیال رہےکہ اسمیں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے، آپ طواف زیارت اور سعی سلےہوئےکپڑوں میں بھی کر سکتے ہیں، طواف کے پہلےتین چکروں میں رمل بھی ہوگا، ہاں اب اضطباع نہیں ہوگا، اس کا موقع ختم ہو گیا۔ الحمد للہ دسویں ذی الحجہ کےسارے کام انجام پا گئے۔ اب آپ مکمل طور پر احرام کی پاندیوں سےفارغ ہو گئے۔ عورت بھی اب حلال ہو گئی۔ فارغ ہو کر آپ پھر منی چلےجائیں۔ طواف زیار ت کےبعد دو رات اور دو دن منی میں قیام کرنا ہے۔ گیارہ اور ٢١، ذی الحجہ کو تینوں جمروں کی رمی کرنا ہےاور آج رمی کا وقت زوالِ آفتاب کےبعد ہے۔ اپنےخیمےیا مسجد خیف میں ظہر کی نماز ادا کریں اور پھر رمی کےلئےنکل جائیں۔ راستہ میں سب سےپہلےجمرہ اولی ”چھوٹا شیطان“ آئےگا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کل جمرہ عقبہ کی رمی کی تھی، اس پر سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکر ی پر : بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر´، رَغمَاً لِلشَّیطَانِ وَ رِضًی لِلرَّحمَانِ رمی کےبعد دائیں جانب ہٹ کر قبلہ رخ کھڑےہو کر دعا کریں۔ توبہ، استغفار اور تسبیح و ذکر کےبعد درود شریف پڑھیں، اپنےلئےدعا مانگیں، اپنےدوست و احباب کےلئےبھی دعا مانگیں۔ اس کےبعد آگےچلیں جمرہ وسطی ” درمیانی شیطان“ پر آئیں اور اسی طرح سات کنکریاں ماریں، جس طرھ ”جمرہ اولی“ پر ماری تھیں اور ذرا ہٹ کر قبلہ رخ ہو کر دعا مانگیں اور اتنی دیر ہی ٹھہریں جتنی دیر ”جمرہ اولی“ پر ٹھہرےتھی۔ اس کےبعدجمرہ عقبی‘ ”بڑےشیطان“ پر آئیں۔ اسی طرح سات کنکریاں اس کو بھی ماریں، جس طرح پہلےماری تھیں، مگر اس جمرہ پر ٹھہرنےیا دعا مانگنےکا ثبوت نہیں ہے اب حج کےتمام ارکان ادا ہو چکےہیں، اور حج کی نعمتِ عظمی آپ کو حاصل ہو چکی ہے، صرف طوافِ وداع کرنا باقی ہے۔ طواف وداع : جب مکہ معظمہ سےوطن واپس ہونےکا ارادہ ہو تو طواف وداع یعنی رخصتی کا طواف کیا جاتا ہے، یہ طواف مکہ سےباہر رہنےوالے”آفاقی“ پر واجب ہے۔ جس عورت کو حیض آرہا ہو یا نفاس کی حالت میں ہو اورمکہ سےرخصت ہونےکےوقت تک پاک نہ ہو تو اس سےطوافِ وداع معاف ہو جاتا ہے، ایسی عورت کو چاہیےکہ حرم شریف کےدروازہ سےباہر کھڑی ہو کر دعا مانگ لےاور حرم شریف میں داخل نہ ہو۔ بیت اللہ کی جدائی پر افسوس اور ندامت کا اظہار کیجئے، مسجد حرام سےالٹے پیر نکلنا آپ سےثابت نہیں ہے، تاہم علماءکرام اور بزرگانِ دین نےکعبۃ اللہ کی عظمت کےخاطر ایسا کرنا بہتر بتایا ہے۔ اس عرصہ میں مسجد حرام اور بیت اللہ کےآداب اور حقوق کےبارےمیں آپ سےجو کوتاہیاں ہوئیں اُن کی معافی مانگتےہوئےمسجد حرام سےنکلیےاور حسب قاعدہ بایاں پاؤں پہلےنکالییے(باب الوداع یا کسی بھی دروازےسے) مسجد حرام سےباہر نکلتےہوئےیہ دعا پڑھیے: اَللّٰھمَّ اغفِر´ لِی´ ذُنُوبِی وَ افتَح´ لِی اَبوَابَ رَحمَتِکَ محمد اقبال” فلاحی “خانپوری
[ترمیم] زیارت مدینہ منورہ
اللہ تعالی کےمقدس ”گھر خانہ کعبہ “کےدیدار سےمشرف، اور حج کےمبارک فریضہ سےسُبکدوش ہو نےکےبعد زندگی کی سب سےبڑی اور عظیم الشان سعادت مسجد نبوی اور سرور کائنات کےروضہ اقدس کی زیارت کےلئےمدینہ منورہ کی جانب روانگی ہے۔ یہ بات یاد رہےکہ آپکو مکہ مکرمہ پہونچنےکےبعد پہلےہی دن جو کارڈ دیا گیا تھا، مدینہ منورہ روانگی سےپہلےآپکو وہ کارڈ جمع کرنا ہوگا، کیونکہ اسی کارڈ کی مدد سےمعلم کےدفتر میں آپکا پاسپورٹ تلاش کیا جائیگا اور مدینہ لےجانےوالی بس کےڈرایور کےحوالےھوگا جو مدینہ منورہ میں وہاں کےمعلم کو حوالےکریگا۔ زیارت مسجد نبوی کی تڑپ اور خواہش ہر مسلمان کےدل میں ہوتی ہے، یہ ایک ایسی بات ہےجس پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ ملا علی قاری جو فقہ حنفی کےبڑے عالم اور بلند پایہ کےمحدث ہیں لکھتےہیں کہ بعض حضرات کو چھوڑ کر جنکا اختلاف ناقابل قبول ہے، امت کا اس بات پر اتفاق ہےکہ حضور کی زیارت بہت بڑی عبادت، رفع درجات کا ذریعہ اور رضاءخداوندی کا وسیلہ ہے، اس کا حکم وجوب سےقریب قریب ہےاور بعض علماءکےنزدیک صاحب استطاعت حضرات پر واجب ہے، گنجائش اور استطاعت کےباوجود حضور کی زیارت کےلئےمدینہ طیبہ حاضری نہ دینا بہت بڑی محرومی، بدنصیبی اور بےمروتی ہے۔اس لئےجو شخص حج کو جائےاس کو مدینہ منورہ ضرور حاضری دینا چاہیے، حدیثوں میں اسکی بہت ہی تاکید اور ترغیب آئی ہے حضور اکرم کی قبر کی زیارت کےلئےسفر کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم سےبھی ثابت ہے۔ بیت المقدس کی فتح کےبعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ کی اجازت سےشام چلےگئےتھےاور وہیں نکاح بھی کر لیا تھا۔ ایک دن آنحضور کی خواب میں زیارت ھوئی۔ آپ نےفرمایا کہ بلال یہ کیا ظلم ہے، ھماری زیارت کےلئےبھی وقت نہیں ملتا ! خواب دیکھتےہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ پریشان ھوگئے، سفر کےلئےاونٹنی تیار کی اور مدینہ منورہ حاضری دی، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی آمدکی خبر سن کر حضرات حسنین تشریف لائےمعانقہ کیا اور اذان دینےکی درخواست کی۔ پیارےصاحبزادوں کی درخواست پر حضرت بلال نےاذان دی۔ اذان بلال سنتےہی مدینہ کےمرد اور عورتیں روتےھوئےگھر سےباہر نکل آئےاور زمانہ نبوی کی یاد نےہر ایک کو تڑپا دیا۔ اس واقعہ کو ذکر کرنےکا مقصد یہی ہےکہ دیکھیئےزیارت روضہ اقدس کےلئےحضرت بلال کا سفر ثابت ہے۔ متعدد روایات میں ہےکہ حضرت عمر شام سےایک سوار کو صرف اسلئےمدینہ منورہ بھیجتےتھےکہ وہ روضہ اطہر پر انکےسلام پیش کرے۔ حدیث شریف میں ہےکہ حق سبحانہ و تعالی نےفرشتوں کی ایک جماعت ایسی پیدا کی ہےجو قاصدین زیارت کےتحفۂدرود کو دربار نبوی میں پہنچاتےہیں اور عرض کرتےہیں کہ فلاں بن فلاں زیارت کو آرہا ہےاور یہ تحفہ پہلےبھیجا ہے۔ دوسری حدیث میں ہےکہ جب مدینہ منورہ کا زائر قریب پہنچتا ہےتو رحمت کےفرشتےتحفےلیکر اس کےاستقبال کو آتےہیں اور طرح طرح کی بشارتیں سناتےہیں اور نورانی طبق اسپر نثار کرتےہیں۔ (جذب القلوب) اگر حج سےفراغت کےبعد مدینہ منورہ جارہےہیں تو ایک تو اس بات کا اھتمام کریں کہ طواف وداع کرنا نہ بھولیں اور دیگر اس بات کا خیال رکھیں کہ اپنا پورا سامان حتی کہ زم زم بھی ساتھ لےکر چلیں، کیونکہ اب آپکو تقریبا مدینہ منورہ سےسیدھےجدہ لےجایا جائیگا اور وہاں سےایکاد دن میں وطن واپسی ھوگی اور دوبارہ مکہ مکرمہ جانا نہیں ملیگا۔یا مدینہ سے ہی ہواءی جہاز میں سورا کرادیاجایےگا۔ اگر سامان کی زیادتی یا کسی اور وجہ سےآپ مدینہ منورہ زم زم لےجانا نہیں چاہتےتو مدینہ منورہ سےبھی آپ زم زم لےسکینگی۔ حیّ علی الصلوة کی جانب جہاں عورتوں کی نماز کا انتظام ھوتا ہے، اس سےباہر کھلےصحن میں بالکل اخیر میں زم زم کےپانی کی سبیل ”نل“ لگےھوئےہیں، وہاں سےبھی ضرورت کی مقدار پانی بھرا جاسکتا ہے۔ اور اگر آپ حج کی ادائیگی سےپہلےہی مدینہ منورہ جار ہےہیں تو بقدر ضرورت سامان ہی مدینہ طیبہ لےجائیں اور زائد سامان مکہ مکرمہ رہنےدیں۔ مکہ معظمہ کی جدائی اور فراق کےرنج و ملال کو ،مدینہ طیبہ، مسجد نبوی اور روضہ مطہرہ کی زیارت اوربارگاہ نبوت کی حضوری کےمسرت بخش اور لذیذ تصور سےبدل دیجیئےاور عشق و مستی سےسرشار ہو کر آپ پر درود و سلام پڑھیئے: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی آلِہِ وَ اَصحَابِہِ وَ بَارَکۡ وَ سَلَّم، کَمَا تُحِبُّ وَ تَرضٰی، عَدَدَ مَا تُحِبُّ وَ تَرضٰی۔ اب آپ ہر گھڑی مکہ مکرمہ سےدور اور مدینہ منورہ سےقریب ھوتےجارہےہیں، ہاں مگر آپ ہیں تو دو حرم کے بیچ، مبارک ہو آپکا یہ سفر اور حرمین شریفین کی زیارت۔ حکومت سعودیہ نےمکہ مکرمہ سےمدینہ منورہ تک وسیع راستہ بنادیا ہے، یہ وہی راستہ ہےجسپر چلکر آپ نےمکہ مکرمہ سےمدینہ منورہ کا سفر طےفرمایا تھا، اسی وجہ سےاس راستہ کا نام شارع الھجرة ”ہجرت ہائی وے“ رکھا گیا ہے۔ اس روڈ کی وجہ سےمکہ مکرمہ سےمدینہ منورہ کا سفر بہت ہی آسان اور مبارک ہو گیا ہے۔ آپ کا سفر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کےگھر سےشروع ہو کر قُبا پر پورا ہوا تھا ، یہ روڈ بھی قبا ھوتا ہوا مدینہ منورہ پہونچتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں جماعت سےعشاءکی نماز پڑھکر مدینہ منورہ کا سفر شروع کرنےوالاآدمی بآسانی مسجد نبوی کی فجر کی جماعت میں شریک ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی قافلےتہجد کےوقت ہی پہونچ جاتےہیں۔ مدینہ منورہ جاتےہوئےاس پختہ سڑک اور ہموار راستہ کو آپ منزل بمنزل تیز رفتار موٹر سےطےکر رہےہیں۔ کل تک آسائش اور آرام کےان وسائل و ذرائع کا نام ونشان نہیں تھا۔ تقریبا ایک ہزار چار سو سال سےکروڑوں انسان، نبی اکرم کا نام لیکر ،ان کا دم بھرتےہوئے، طرح طرح کی تکالیف ومشکلات اور ہمت شکن خطرات کو انتہائی صبر وتحمل اور خندہ پیشانی سےبرداشت کرتےہوئے، اس راستہ سےگزرتےرہے، عاشقانِ رسول اللہ کےقافلےہر سمت سےآتےرہے، جاتےرہے۔شمع محمدی کےلاکھوں پروانےتقریبا ٥٨٤ کیلو میٹر کےاس طویل راستہ میں، ان وادیوں، ان پہاڑوں، ان لق و دق میدانوں میں مرےیا مارےگئے، لوٹےگئے، اپنوں سےبچھڑے، قافلےسےالگ ہو گئے، ریت کےٹیلوں اور پہاڑیوں میں راستہ بھول کر کہیں سےکہیں نکل گئےاور زمین ان کو نگل گئی، یہ لاکھوں روحیں آپ کا استقبال کر رہی ہیں اور امیدوار ہیں کہ آپ ان کو بھی کچھ پڑھ کر بخش دیں، ان شہیدوں کو بھی کچھ دیتےجائیں اور خدا کا شکر ادا کیجئےکہ آپ ہوا سےباتیں کرتےہوئے بےخوف و خطر، آرام اور اطمینان کےساتھ چند گھنٹوں میں روضہ اطہر پر محبوبِ خدا کےسایہ رحمت میں ہوں گے، یہ فخر و سعادت آپ کو نصیب ہوئی، اس نعمت پر رب العالمین کےحضور سجدہ شکر ادا کیجیئے۔