شرک
وکیپیڈیا سے
شرک نکلا ہے لفظ "شراکت" سے جس کا مطلب ہے ساجھے داری یا ۔Partnership
شراکت کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ دو پارٹیز، جن میں شراکت ہو رہی ہے، وہ اپنے اپنے حصے کے منافع کے خود مختار مالک ہوں گے۔
لیکن اگر کسی مالک نے اپنے اختیارات کا کچھ حصہ اپنے کسی نمائندے کو دے دیا ہے، تو اسے شراکت نہیں کہیں گے، بلکہ یہ نمائندگی ہے۔
اسلامی نقطہ نگاہ سے، اگر کوئی شخص اللہ کی ذات اور صفات میں کسی کو اُس کا خود مختار حصہ دار ٹھراتا ہے، تو یہ شرک کہلائے گا۔
ذات میں شرک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی یہ کہے کہ اللہ کا باپ، یا بیٹا ہے، یا کوئی اُس کی ذات کے مثل ہے ۔۔۔۔ مثلاً جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنا لیا ہے۔
صفات میں شرک کا مطلب ہے کہ کسی کو اللہ کے صفات میں "خود مختار حصہ دار" سمجھا جائے۔
مثلاً اللہ کی صفات بہت سی ہیں جیسے غفور و رحیم، کریم، جبار، قوی، متکبر، رحمن، ۔۔۔۔
اور یہی صفات انسانوں میں بھی پائی جاتی ہیں مثلاً رسول اکرم محمد (ص) کے متعلق قران میں ہی ہے کہ وہ بھی کریم ہیں (جبکہ حقیقی معنوں میں کریم اللہ کی صفت ہے)، اسی طرح قران میں ہے کہ رسول (ص) روؤف اور رحیم ہیں (جبکہ حقیقی معنوں میں اللہ ہی روؤف و رحیم ہے)
تو خالی یہ ماننے سے شرک لازم نہیں آیا کہ رسول (ص) کریم، قوی، روؤف اور رحیم ہیں، بلکہ شرک اُس وقت واجب آئے گا جب کوئی رسول (ص) کو ان صفات میں اللہ کا "خود مختار حصہ دار" سمجھے۔
اللھم صلی علی محمد و آلِ محمد