عزیز میاں
وکیپیڈیا سے
عزیز میاں | ||
---|---|---|
![]() عزیز میاں قوال
|
||
فنکار موسیقی | ||
پیدائشی نام | عبد العزیز | |
دیگر نام | عزیز میاں میرٹھی عزیز میاں قوال |
|
ولادت | 17 اپریل 1942ء | |
ابتدا | لاہور، پاکستان | |
وفات | 6 دسمبر 2000ء | |
اصناف موسیقی | قوالی | |
پیشہ | گلوکار گیت نگار موسیقار |
|
آلۂ موسیقی | ہارمونیئم | |
سرگرم دور | 1970ء تا 2000ء |
عزیز میاں (ولادت: 17 اپریل 1942ء، وفات: 6 دسمبر 2000ء) پاکستان کے چند مقبول ترین قوالوں میں سے ہے۔ اس کی پیدائش بھارت کے شہر دہلی میں ہوئی۔
عزیز میاں کا شمار قدرے روایتی قوالوں میں ہوتا تھا۔ اس کی آواز بارعب اور طاقتور تھی۔ لیکن اس کی کامیابی کا راز صرف اس کی آواز نہیں تھی۔ عزیز میاں نہ صرف ایک عظیم قوال تھا بلکہ ایک عظیم فلسفی بھی تھا، جو اکثر اپنے لیے شاعری خود کرتا تھا۔ عزیز میاں نے پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے اردو اور عربی میں ایم اے کیا ہوا تھا۔
اس کا اصل نام عبدا لعزیز تھا۔ "میاں" اس کا تکیہ کلام تھا، جو وہ اکثر اپنی قوالیوں میں بھی استعمال کرتا تھا، بعد میں اس کے نام کا حصہ بن گیا۔ اس نے اپنے دور کا آغاز "عزیز میاں میرٹھی" کی حیثیت سے کیا۔ میرٹھی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد عزیز میاں نے بھارت کے شہر میرٹھ سے اپنے وطن کی طرف ہجرت کی تھی۔
اسے اپنے ابتدائی دور میں "فوجی قوال" کا لقب ملا کیونکہ اس کی شروع کی سٹیج کی بیشتر قوالیاں فوجی بیرکوں میں فوجی جوانوں کیلیے تھیں۔
مختلف قسم کے معمولی الزامات پر اسے کئی دفعہ گرفتار کیا گیا لیکن بعدازاں بری کر دیا گیا۔
عزیز میاں کی قوالیوں میں زیادہ توجہ کورس گائیکی پر دی جاتی تھی جس کا مقصد قوالی کے بنیادی نکتہ پر زور دینا تھا۔ عزیز میاں کو شاعری پڑھنے میں کچھ ایسی مہارت حاصل تھی جو سامعین پر گہرا اثر چھوڑ جاتی تھی۔ اس کی بیشتر قوالیاں دینی رنگ لیے ہوئے تھیں گو کہ اس نے رومانی رنگ میں بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ عزیز میاں کی مقبول ترین قوالیاں "میں شرابی میں شرابی" (یا "تیری صورت") اور "اللہ ہی جانے کون بشر ہے" ہیں۔
[ترمیم] میں شرابی
عزیز میاں کو اپنی قوالیوں میں دینی اور صوفی مسائل پر بحث کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ وہ براہ راست خدا سے ہم کلام ہوتا اور اشرف المخلوقات کی قابل رحم حالت کی شکایت کرتا۔ خدا سے ہم کلام ہونے والی قوالیوں میں وہ زیادہ تر علامہ اقبال کی شاعری استعمال کرتا۔ مثلا عزیز میاں کے مندرجہ ذیل پسندیدہ اشعار پڑہیے:
باغ بہشت سے مجھے اذن سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
مجھے تو اس جہان میں بس اک تجھی سے عشق ہے
یا میرا امتحان لے یا میرا اعتبار کر
پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ مزاح کار عمر شریف نے ایک دفعہ عزیز میاں کے بارے میں ایک مزاحیہ شو میں کہا تھا: "لوگوں کی جھگڑے زمین پر ہوتے ہیں، اس کے جھگڑے آسمان پہ ہیں۔ یہ اللہ سے جھگڑا کرتا ہے"۔
صابری برادران نے عزیز میاں کی قوالی "میں شرابی میں شرابی" کو اپنی ایک قوالی "پینا وینا چھوڑ شرابی" میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ عزیز میاں نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب اپنی ایک اور قوالی "ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں" میں دیا۔ عزیز کے صابری برادران کو جواب کے بعد سے "میں شرابی میں شرابی" اور "ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں" کو ایک ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
[ترمیم] وفات
عزیز میاں کا انتقال دسمبر 6، 2000 کو تہران (ایران) میں یرقان کی وجہ سے ہوا۔ اسے حضرت علی کرم اللہ وجہ کی برسی کے موقع پر ایرانی حکومت نے قوالی کیلیے مدعو کیا تھا۔ عزیز میاں کے دو بیٹے، عمران اور تبریز، اس کے ورثہ کو اپنائے ہوئے ہیں۔ دونوں قوالی کے انداز میں اپنے والد سے بہت مشابہت رکھتے ہیں۔