دھنک
وکیپیڈیا سے
دھنک (Rainbow) فطرت کا ایک مظہر ہے۔ جس میں بارش کے بعد فضا میں موجود پانی کے قطرے ایک منشور کیطرح کام کرتے ہیں۔ جب ان میں سے سورج کی شعائیں گزرتی ہیں اور یہ گزرنے کے بعد سات رنگوں میں بدل جاتی ہیں اور یوں آسمان کے اوپر ایک سترنگی کمان یا دھنک بن جاتی ہے۔ اسے قوس و قزح بھی کہتے ہیں۔
دھنک کے یہ سات رنگ سرخ (Red)، مالٹائی (Orange)، پیلا (Yellow)، سبز (Green)، نیلا (Blue)، جامنئی (Indigo) اور گہرا نیلا (Violet) شامل ہیں۔
دھنک اس وقت نظر آتی ہے جب بارش کے قطرے فضا میں ہوں اور سورج کی روشنی دیکھنے والے کے پیچھے سے چھوٹے زاویے سے آرہی ہوں۔ زیادہ خوبصورت دھنک اس وقت بنتی ہے جب آدھے آسمان پر بادل ہوں اور آدھا آسمان صاف ہو اور دیکھنے والے کے سر پر بھی آسمان صاف ہو۔ دھنک کے آبشاروں اور فواروں کے گرد بننے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔
دھنک اس وقت بنتی ہے جب سورج کی روشنی کی شعاع پانی کے ایک قطرے میں داخل ہوتی ہے یہ قطرہ مثلثی منشور کی طرح کام کرتا ہے۔ پانی کے قطرے میں داخل ہونے کے بعد یہ شعاع مڑتی ہے قطرے کے آخر میں پہنچ کر یہ شعاع منعکس ہوتی ہے اور واپس مڑتی ہے قطرے سے باہر نکلتے ہوۓ یو دوبارا مڑتی ہے اور سات رنگوں ميں تبدیل ہو جاتی ہے۔
دھنک آسمان پر عملی طور پر موجود نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک نظری مظہر ہے۔ جس کا مقام دیکھنے والے کی جگہ پر منحصر ہوتا ہے۔ تمام قطرے سورج کی شعاعوں کو موڑتے اور منعکس کرتے ہیں۔ لیکن چند قطروں کی روشنی ہی دیکھنے والے تک پہنچتی ہے۔
[ترمیم] دھنک کی سائنس کی تاریخ
ایرانی ماہر فلکیات قطب الدین شیرازی یا اسکا شاگرد کمال الدین الفراضی پہلے لوگ تھے جنھوں نے دھنک کے مظہر کو صحیح صحیح بیان کیا۔ نیوٹن نے پہلی بار یہ ثابت کیا کہ سفید روشنی دھنک کے سات رنگوں سے مل کر بنتی ہے۔
[ترمیم] اردو شاعری میں
آج بادل خوب برسا اور برس کر کھل گیا
بوٹا بوٹا، ڈالی ڈالی، پتا پتا دھل گیا
دیکھنا! کیا دھل گیا سارے کا سارا آسماں
اودا اودا، نیلا نیلا، پیارا پیارا آسمان
ہٹ گیا بادل کا پردہ، مل گئی کرنوں کو راہ
سلطنت پر اپنی پھر خورشید نے ڈالی نگاہ
دھوپ میں ہے گھاس پر پانی کے قطروں کی چمک
مات ہے اس وقت موتی اور ہیرے کی دمک
دیکھتا! وہ کیا اچھنبھا ہے ارے، وہ دیکھنا
آسمان پر، ان درختوں سے پرے، وہ دیکھنا
وہ کوئی جادو ہے، یا سچ مچ ہے اک رنگیں کماں
واہ وا! کیسا بھلا لگتا ہے یہ پیارا اسماں
کس مصور نے بھرے ہیں رنگ ایسے خوشنما؟
اس کا ہر اک رنگ آنکھوں میں جیسے کھب گیا
اک چگہ کیسے اکھٹے کر دیے، ہیں سات رنگ:
شوخ ہیں ساتوں کے ساتوں اک نہیں ہے مات رنگ
ہے یہ قدرت کا نظارہ، اور کیا کہے اسے؟
بس یہی جی چاہتا ہے دیکھتے رہے اسے
ننھے ننھے جمع تھے پانی کے کچھ قطرے وہاں
ان پہ ڈالا عکس سورج نے بنا دی یہ کماں
دیکھو دیکھو! اب مٹی جاتی ہے وہ پیاری دھنک
دیکھتے ہی دیکھتے گم ہو گئی ساری دھنک
لو ہوا میں مل گئی وہ سب کی سب کچھ بھی نہیں
آنکھیں مل مل کر نہ دیکھو آؤ، اب کچھ بھی نہیں۔