عکہ
وکیپیڈیا سے
شمالی اسرائیل کا ایک شہر جسے انگریزی میں Acre جبکہ عبرانی میں Akko کہا جاتا ہے۔ اسرائیلی ادارۂ شماریات کے مطابق 2003ء کے اختتام تک شہر کی آبادی 45،600 تھی۔ یہ یروشلم سے 152 کلومیٹر دور واقع ہے۔
طویل عرصے تک یہ شہر "کلیدِ فلسطین" کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس شہر کا قدیم علاقہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے تعلیم، ثقافت و سائنس (یونیسکو) کے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیئے گئے علاقوں میں شامل ہے۔
نائٹس ہاسپٹلرز کے تعمیر کردہ قلعے کی بنیادوں پر عثمانیوں نے موجودہ قلعہ تعمیر کیا جو شہر کے آثار قدیمہ میں اہم مقام رکھتا ہے اور 20 ویں صدی کے بیشتر حصے میں یہ قید خانے کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ اس کے علاوہ بھی یہاں کئی قابل دید مقامات ہیں۔ بہائی مذہب کا قبلہ اور بہاء اللہ کا مقبرہ بھی یہیں واقع ہے۔
[ترمیم] تاریخ
مسلمانوں نے یہ شہر 638ء میں فتح کیا اور 1104ء میں صلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔ 1187ء میں صلاح الدین ایوبی نے اسے فتح کیا۔ 1191ء میں تیسری صلیبی جنگ کے دوران شہنشاہ انگلستان رچرڈ شیر دل نے اس شہر کا محاصرہ کرلیا اور اسے فتح کرکے مسلمانوں کا زبردست قتل عام کیا۔ 1229ء میں یہ شہر نائٹس ہاسپٹلرز کے زیر قبضہ آگیا۔ یہ سرزمین فلسطین پر صلیبی ریاستوں کا آخری گڑھ تھا جسے بالآخر 1291ء میں مملوکوں نے فتح کرکے فلسطین سے عیسائی اقتدار کا خاتمہ کردیا۔
1517ء میں عثمانی سلطان سلیم اول نے مملوکوں کو شکست دے کر فلسطین کو عثمانی سلطنت میں شامل کرلیا۔ 18 ویں صدی میں مقامی سردار ظاہر العمر اور اس کے جانشیں اور گورنر دمشق احمد جزار پاشا نے اس شہر کے گرد دوبارہ فصیل قائم کی اور اس کی عظمتیں لوٹائیں۔
1799ء میں نپولین سے اس شہر کا دو ماہ طویل محاصرہ کیا لیکن برطانیہ کی مدد سے ترک فتحیاب ہوئے۔ جزار کے بعد اس کا بیٹا سلیمان جانشیں بنا لیکن خدیو مصر محمد علی پاشا کے بیٹے ابراہیم پاشا نے 1831ء میں اس کے ڈھیلے ڈھالے اقتدار کا خاتمہ کردیا۔ 1947ء کے اقوام متحدہ کے منصوبہ تقسیم فلسطین کے تحت عکہ فلسطین کی عرب ریاست میں شامل ہونا تھا۔ فلسطینیوں نے اقوام متحدہ کے اس منصوبے کے مکمل طور پر مسترد کردیا۔ عرب اسرائیل جنگ 1948ء کے دوران 17 مئی کو اسرائیل نے شہر پر قبضہ کرلیا اور شہر کی تین چوتھائی عرب آبادی کو شہر چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ عکہ اسرائیل کے تمام شہروں میں سب سے بڑی غیر یہودی آبادی کا حامل شہر ہے جس کی 45 فیصد آبادی عیسائی، مسلمان، دروز اور بہائی ہے۔