تاریک مادہ (حصہ اول)
وکیپیڈیا سے
طبیعی علم الکائنات |
|
وابستہ مضوعات |
|
- یہ مضمون دو حصوں میں تقسیم ہے
- تاریک مادہ (حصہ اول)
- تاریک مادہ (حصہ دوم)
سادہ الفاظ میں خلاصہ
- سب سے پہلے تو ایک بنیادی بات یہ کہ ، مادہ اور توانائی اس کائنات میں دو مشاہدہ کی جا سکنے والی اشیاء ہیں۔ مادہ ، جن بنیادی ذرات سے ملکر بنتا ہے انکو جوہر یا ایٹم کہا جاتا ہے اور توانائی کام کرنے کی قوت کو کہا جاتا ہے۔ مادے کی موجودگی کی وجہ سے بھی ایک توانائی (کشش کی قوت) پیدا ہوتی ہے جسکو کشش ثقل کہا جاتا ہے اور اسی کشش کی وجہ سے کائنات کے تمام ستارے اور سیارے آپس میں بندھے ہوئے ہیں۔
- جب کوئی سیارہ یا ستارہ اپنے مرکز کے گرد مدار میں گھومتا ہے تو اس پر دو قوتیں عمل کرتی ہیں۔ 1- مرکزمائل قوت ؛ یہ کشش ثقل ہے جو اسکو مرکز کی طرف کھینچتے ہوۓ اپنے مدار میں قائم رکھتی ہے اور 2- مرکزگریزقوت ؛ جو اسکی دائری حرکت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور اسکو مرکز سے دور لے جانا چاہتی ہے ، بالکل ایسے جیسے کہ کسی رسی میں پتھر باندھ کر گھمایا جاۓ اور چھوڑ دیا جاۓ تو وہ دور چلا جاتا ہے۔
- بنیادی طور پر ان ہی دو ، مرکزمائل اور مرکزگریز ، قوتوں کی وجہ سے ہماری زمین، سیارے، ستارے اور کہکشائیں اپنے اپنے مدار میں مستقل رفتار سے گھوم رہے ہیں۔ اور اگر کسی وجہ سے انکی گھومنے کی رفتار (اور اسکی وجہ سے ظاہر ہے کہ مرکزگریزقوت بھی) اتنی زیادہ ہوجاۓ کہ وہ کشش ثقل یا مرکزگریزقوت سے بڑھ جاۓ تو پھر وہ ستارہ اپنا مدار چھوڑ کر دور چلا جاۓ گا یعنی کائنات کا تمام نظام درہم برہم ہو کر رہ جاۓ گا۔
- جو ستارہ مرکز سے جتنا دور (یعنی کناروں کے قریب) ہوتا ہے اس پر کشش ثقل کی قوت اتنی ہی کم ہوتی چلی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسکو اصولی طور پر اپنی گھومنے کی رفتار کو کم کرنا پڑے گا تاکہ کشش ثقل کے اثر سے باہر نہ نکلنے پاۓ اور اپنے مدار میں ہی قائم رہ سکے۔
- کچھ سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ کہکشاؤں کے کناروں کے قریب (یعنی مرکز سے دور) ستارے بھی اس رفتار سے تیز گھوم رہے ہیں کہ جس رفتار سے انہیں (اوپر بیان کردہ اصول کے مطابق) گھومنا چاہیۓ۔ یعنی دوسرے الفاظ میں یوں کہـ لیں کہ جتنی کشش ثقل کہکشاں میں موجود نظر آنے والے مادے سے پیدا ہورہی ہوتی ہے ، ستارے اس کی نسبت تیز رفتار ہیں اور اسطرح ہونا تو یہ چاہیۓ کہ وہ اپنے گھومنے کی رفتار (مرکزگریزقوت) کی وجہ سے کشش ثقل کو توڑ کر اپنے رائرے سے نکل جائیں ، مگر ایسا نہیں ہوتا لہذا سائنسدانوں نے اندازہ لگایا اور ثابت کیا کہ یقینی طور پر کہیں ایسا مادہ موجود ہے جو کہ نظر نہیں آرہا مگر کشش ثقل پیدا کررہا ہے تا کہ ستاروں کو اپنے مدار سے نکلنے نہ دے اور کائنات کا نظام درہم برہم نہ ہونے پاۓ۔ مگر چونکہ یہ مادہ نظر نہیں آتا اس لیۓ اسکو تاریک مادے کا نام دے دیا گیا ۔
- اس خلاصہ میں مرکزمائل اور مرکزگریزقوتوں کا بیان مفہوم سمجھانے کی خاطر انتہائی سادہ اور آسان الفاظ میں دیا گیا ہے۔ درحقیقت ، کائناتی نظام پر عمل پیرا قوتوں کی خاصی پیچیدہ وضاحتیں (معیارحرکت، برقی مقناطیسی قوتیں اور جمودی قوانین کے ساتھ) پیش کی جاچکی ہیں لیکن بنیادی طور پر بہرحال ان ہی قوتوں کا توازن ہے جو کہ بلاخر قائم ہے۔
فہرست |
[ترمیم] تفصیلی مضمون
علم الکائنات میں، تاریک مادہ ایک قیاسی و گمانی مادہ ہے جسکی ساخت و ھيئت نامعلوم ہے۔ یہ مادہ اتنی برقناطیسی شعاعیں خارج نہیں کرتا کہ اسکو تلاش کیا جاسکے یا اسکے وجود کی شناخت کی جاسکے ، مگر اسکی موجودگی کا احساس اس کشش ثقلی قوت سے کیا جاسکتا ہے جو یہ دوسرے قابل مشاہدہ مادی اجسام ، مثلا کہکشانوں اور ستاروں پر لگاتا ہے۔ تاریک مادہ ، ہیت کے متعدد شذوذی (anomalous) یا خلاف قاعدہ مشاہدات کے سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے مثال کے طور پر کہکشانوں کی گردشی رفتار کے شذوذات (شذوذات جمع ہے شذوذ کی جسکے معنی غیرمعمولی یا خلاف قاعدہ کے ہیں، اسکے طب اور علم الہیت میں ذرا مختلف استعمال کیلیۓ شذوذ (ضد ابہام) صفحہ مخصوص ہے)۔ کہکشانوں میں موجود مادے کی مقدار کے بارے میں کشش ثقل مدد سے لگاۓ گۓ تخمینے اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ کائنات میں اس سے کہیں زیادہ مقدار میں مادہ موجود ہے کہ جتنا نظر آتا ہے۔ تاریک مادے کے زریعے نظریہ انفجار عظیم میں محسوس و مشاہدہ کی جانیوالی کئی نااستواریوں یا ناہم آہنگیوں کو سمجھنے میں بھی معاونت ملتی ہے، اسکے علاوہ یہ کہ تاریک مادہ، تشکیل ساخت کیلیۓ بھی ضروری ہے۔
[ترمیم] ہے، کہ نہیں ہے؟
ایک ایسے مادے کا وجود کے جو تمام کائنات میں موجود ہے پر نطر نہیں آتا اور اسکو دیکھنے کی تمام کوششیں بھی اب تک بے سود رہی ہوں ، اگر اکثر سائنسدانوں کیلیۓ تحقیق کے نۓ دروازے کھولتا ہے تو وہیں کچھ کیلیۓ اسے ہضم کرنا تو دور کی بات کھانا اور تصور کرنا بھی ممکن نہیں کہ انکے لیۓ یہ پلیٹ میں سجایا گیا ایک ایسا حلوہ ہے کہ جس میں بادام اور کشمش تو معلق ہوں مگر سوجی غائب [1]۔ موجودہ تحقیقات کی رو سے کائنات میں ثقیلوں (baryons) اور شعاعوں (radiation) کی تخمینہ شدہ کثافت ، ایک آبگر (hydrogen) فی مکعب میٹر فضاء ہے اور کہا جاتا ہے کہ تمام کائنات میں صرف چارفیصد جوہر یعنی اصل قابل مشاہدہ مادہ ہے جبکہ باقی 23 فیصد تاریک مادہ جو نظر نہیں آتا اور 73 فیصد تاریک توانائی ہے [2]۔ یہ تاریک مادہ کس طرح کی ساخت رکھتا ہے؟ کا معاملہ ابھی بحث طلب ہی ہے گو کہ اس کے تصور اور اس سے ماخوذ ریاضی کی مساواتوں نے خاصے مسائل کے سلجھانے میں مدد کی ہے جن سے اس کے وجود اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ اسکے بارے میں اب تک کی معلومات اشارہ کرتی ہیں کہ یہ ایک ایسا کائناتی انبوہ بناتا ہے کہ جو کہکشاؤں کے لیۓ ثقلی لنگر مہیا کرتا ہے اور گمان غالب ہے کہ یہ ایسے بنیادی ذرات پر مشتمل ہوسکتا ہے جن کو ابھی تک دریافت تو نہیں کیا جاسکا [3] مگر انکی تلاش جدید ذراتی طبیعیات (particle physics) کے اہم مسائل میں شامل ہے۔
[ترمیم] مشاہداتی شواہد
سب سے پہلے ایک ایسے مظہر کی موجودگی کے بارے میں نشاندہی کہ جو بعد میں تاریک مادہ بنا ، کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے ایک سویسی ہیئتی طبیعیات داں Fritz Zwicky نے کی۔ اس نے اغماء نامی خوشہ کہکشاں پر مقولہ وایرئل لاگو کرتے ہوۓ نادیدہ کمیت کے بارے میں شہادت حاصل کی اور تخمینہ لگایا کہ ایک خوشہ کہکشاں (خوشہ اغماء) میں کمیت کی کل مقدار اس خوشے (cluster) کے کناروں پر موجود کہکشانوں کی حرکات پر موقوف ہوتی ہے۔ پھر جب اس نے اس کمیت کا اس خوشے میں موجود کل کہکشانوں کی تعداد اور کل تابانی (چمک) کے زریعے حاصل کی جانیوالی کمیت سے موازنہ کیا تو اسپر انکشاف ہوا کہ تخمینہ شدہ کمیت ، متوقع کمیت سے 400 گنا زیادہ ہے۔ اس خوشے میں نظر آنے والی کہکشاؤں کی کشش ثقل انکی مداری رفتار کے مطابق نظام کو برقرار رکھنے کے لیۓ انتہائی ناکافی تھی ، اور کسی نہ کسی اضافی شے کا ہونا لازمی تھا جو کہ توازن کو قائم رکھ سکے۔ اس مظہر کو معما گمنام مادہ کہا جاتا ہے۔ یہاں سے Zwicky نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ، یقینا وہاں مادے کی کوئی ایسی قسم موجود ہے کہ جسکو ہم شناخت نہیں کرپاۓ، اور جو خوشہ کہکشاں کو مربوط رکھنے کے لیۓ درکار اضافی مادہ اور کشش ثقل فراہم کررہا ہے۔
تاریک مادے کے بارے میں زیادہ تر شواہد کہکشاؤں کی حرکت کے مطالعہ سے حاصل ہوۓ ہیں ، جن میں سے اکثر یک ریخت و یکساں پائی گئی ہیں، اور مقولہ وایرئل کی رو سے کل حرکی توانائی کہکشاؤں کی کل ثقلی رابط توانائی کے آدھے کے برابر ہونا چاہیۓ۔ جبکہ تجربات انکشاف کرتے ہیں کہ کل حرکی توانائی اس تخمینہ توانائی سے کہیں زیادہ ہے، یعنی باالفاظ دیگر یوں سمجھیں کہ، اگر تقلی کمیت (وہ کمیت جو کے کشش ثقل کا باعث بن رہی ہو) کو تمام کا تمام صرف نظر آنے والے مادے سے ہی حاصل شدہ تسلیم کر لیا جاۓ تو پھر ان ستاروں کی حرکی توانائی (یا سمتی رفتار) جو کہ کہکشاں کے مرکز سے دور یا کناروں پر ہیں ، مقولہ وایرئل سے اخذ و پیشگوئی کردہ مقدار سے زیادہ ہے۔ یعنی آسان الفاظ میں اگر ثقلی توانائی صرف قابل دید مادے سے ہی آرہی ہو تو پھر یہ ستارے اتنی زیادہ رفتار پر حرکت کرنے کی جرات نہیں کرسکتے تھے کہ جتنی پر وہ کر رہے ہیں۔
کہکشانی گردشی منحنی (rotation curve)، جو کہ گردشی رفتار اور کہکشاں کے مرکز سے فاصلے کے درمیان نسبت کو ظاہر کرتا ہے، کی صرف قابل دید مادے کی مدد سے تشریح نہیں کی جاسکتی۔ اور یہ فرض کرلینا کہ قابل دید مادہ ، خوشہ کہکشاں کا ایک قلیل حصہ بناتا ہے ، گردشی منحنی کی تشریح کے لیۓ ایک نہایت درست راہ محسوس ہوتا ہے۔ کہکشاؤں میں اس امر کے اشارے ملتے ہیں کہ یہ بڑی مقدار میں تاریک مادے کے کم و بیش کروی ھالے پر مشتمل ہوتی ہیں جسکے ساتھ قابل دید مادہ بھی پایا جاتا ہے ، یہ تمام مادہ زیادہ تر کہکشاں کی مرکزی قرص پر مرکوز رہتے ہوۓ کہکشاں کی تمام حرکات پر غالب ہوتا ہے اور اسکے بغیر (جیسا کہ اوپر بھی ذکر کیا گیا) ، مرکز سے دور کہکشانی اجسام (ستاروں) کی گردشی رفتار لازماً اس سے کم ہوگی جو کہ مشاہدے میں آتی ہے۔ پست تابانی سطح والی صغیر کہکشائیں تاریک مادے کے مطالعے کے لیۓ ایک اہم زریعہ فراہم کرتی ہیں کیونکہ ان میں غیرمعمولی طور پر قابل دید ، ناقابل دید مادے کا تناسب کم ہوتا ہے یعنی یوں کہ لیں کہ ان میں تاریک مادہ کثیر مقدار میں پایا جاتا ہے ، اس کے علاوہ جیسا کہ نام سے بھی واضع ہے کہ انکی سطحی تابانی یا چمک کم ہوتی ہے کیونکہ انکے مرکز پر تابان ستارے نسبتاً کم تعداد میں ہوتے جو کہ اپنی چمک کی وجہ سے کناروں پر موجود ستاروں کے گردشی منحنی مطالعے میں ضعف یا خلل پیدا کرسکتے ہیں۔
[ترمیم] کہکشانی گردشی منحنیات
سب سے پہلے تو یہ وضاحت کہ، منحنیات دراصل منحنی کی جمع ہے جسکے معنی خم یا curve کے ہیں۔ Zwicky کے ابتدائی مشاہدات کے بعد تقریبا 40 سال تک کوئی ایسے مشاہداتی شواہد نہیں سامنے آۓ کے جن سے انکو تقویت ملتی یا یہ تائید ہوتی کہ کمیت روشنی تناسب (ایک زیادہ کمیت-روشنی تناسب ، تاریک مادے کے وجود کی دلیل ہے) ایک شماری اکائی سے زیادہ کوئی حیثیت رکھتا ہو۔ 1960 کے اواخر اور 1970 کے اوائل میں موسسہ کارنیگی واشنگٹن (Carnegie Institution of Washington) کے شعبہ ارضی مقناطیسیت کی ایک ہیت داں ویرا روبن (Vera Rubin) نے ایک انتہائی حساس طیف نگار (جو حلزونی / spiral کہکشاؤں کے سمتی رفتاری منحنی کی اتنی درست پیمائش کرسکتا تھا کہ جو اس سے قبل نہ کی جاسکی تھی) کی مدد سے حاصل شدہ اپنے مشاہدات پیش کرنے شروع کیۓ۔ 1975 میں اس نے امریکی انجمن ہیت (American Astronomical Society) کی تقریب علمی میں یہ متحیر کن انکشاف کیا کہ، ایک حلزونی کہکشاں کے بیشتر ستاروں کی مداری رفتار یکساں ہوتی ہے، اور اس سے اس بات کی جانب اشارہ ملتا ہے کہ ان تمام ستاروں (کناروں سے لیکر کہکشانی تودہ (galactic bulge) تک) کی کمیتی کثافتیں بھی یکساں ہیں۔ روبن کی اس دریافت سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ، یا تو نیوٹن کی کشش ثقل کائناتی طور پر لاگو نہیں ہوتیں یا پھر کہکشاؤں کا 50 فیصد سے زیادہ مادہ تاریک کہکشانی ھالہ میں موجود ہوتا ہے۔ ابتداء میں روبن کو اعتراضات اور شکوک کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن رفتہ رفتہ دیگر ھیت داں بھی اس تحقیق میں شامل ہونے لگے اور یوں آج Zwicky کی خوشہ کہکشاں پر اور Rubin کی حلزونی کہکشاں پر تحقیق کے بعد کئی دہائیوں سے کائنات کے مختلف مقامات پر تاریک مادے کی موجودگی کے شواہد اتنی مقدار میں جمع ہوچکے ہیں کہ اب ھیت دانوں کی اکثریت اس قسم کے کسی مادے کے وجود کو تسلیم کرنے لگی ہے۔
[ترمیم] کہکشاؤں کا انتشار سمتی رفتار
وربن کی یہ پیشرو تحقیق وقت کے امتحان پر ثابت قدم رہی۔ اور حلزونی کہکشاؤں میں سمتی رفتار کے منحنیات کے بعد جلد ہی بیضوی کہکشاؤں کے لیۓ بھی تخمینہ کاری کی ابتداء ہوئی۔ یہ کہکشائیں گو کبھی کم کمیت /روشنی تناسب والی محسوس ہوتی ہیں مگر انمیں بھی وافر مقدار میں تاریک مادے کی موجودگی کے شواہد ملتے ہیں۔ اسی طرح منتشر بین الستاری ہوا جو کہ کہکشاں کے کناروں پر پائی جاتی ہے ، کی پیمائش نہ صرف تاریک مادے کی دکھائی دینے والی کہکشانی حدود سے بھی آگے تک موجودگی ثابت کرتی ہے بلکہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ کہکشائیں اپنے دکھائی دینے والے نصف قطر کی نسبت دس گنا زیادہ وایرئل ذدہ ہیں۔ اور اس بات نے ، ثقلی اثرات مرتب کرنے والے کل مادے کی مقدار میں تاریک مادے کے کسور کو روبن کے پیمائش کردہ 50 فیصد سے بڑھا کر موجودہ تسلیم کی جانے والی حد 95 فیصد تک پہنچادیا ہے۔
ایک حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں ایسے مقامات بھی پاۓ جاتے ہیں کہ جہاں تایک مادہ (یا اسکا اثر) یا تو نہ ہونے کے برابر ہے یا پھر یہ کہ ناپید ہی ہے۔ مثلا کروی خوشوں (Globular clusters) میں ایسی کوئی شہادت نظر نہیں آتی جو ان میں تاریک مادے کی موجودگی یا پتا دیتی ہو، اگرچہ یہ ہے کہ انکے مدار اور کہکشاؤں کے مابین روابط ، کہکشانی تاریک مادے کی شہادت مہیا کرتے ہیں۔ ستاروں کی رفتار کے تجزیے سے چند اعدادوشمار نے جادہ شیر یا Milky way (جسے بعض اوقات صرف کہکشاں بھی کہا جاتا ہے) کے قرص میں تاریک مادے کی نشاندہی بھی کی لیکن اب یہ تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ رفتار کے یہ مشاہدات ثقیلی مادوں (baryonic matter) کے کثیر ارتکاز (بطور خاص بین الستاری واسطوں میں) کی وجہ سے ہوسکتے ہیں۔ کہکشانی کمیتی شاکلہ (mass profiles) ، روشنی شاکلہ سے خاصہ مختلف نظر آتا ہے۔ تاریک مادے کی کہکشاں کا ایک مثالی نمونا ایک ہموار اور قدرتی طور پر پھیلے ہوۓ ھالے کا ہے کہ جیسے اسکی مدد سے چھوٹے (سیاری) پیمانے ابعادی اثرات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
مزید تاریک مادہ (حصہ دوم)