سلیم اول
وکیپیڈیا سے
سلیم اول (المعروف سلیم یاووز) (پیدائش: 10 اکتوبر 1465ء، انتقال 22 ستمبر 1520ء) 1512ء سے 1520ء تک سلطنت عثمانیہ کے سلطان تھے۔ سلیم کے دور میں ہی خلافت عباسی خاندان سے عثمانی خاندان میں منتقل ہوئی اور مکہ و مدینہ کے مقدس شہر عثمانی سلطنت کا حصہ بنے۔ اس کی سخت طبیعت کے باعث ترک اسے "یاووز" یعنی "درشت" کہتے ہیں۔
[ترمیم] تخت نشینی
انہوں نے اپنے والد بایزید ثانی کو تخت سے اتارا اور خود حکومت سنبھالی۔ قانون کے مطابق انہوں نے تخت سنبھالتے ہی اپنے تمام بھائیوں اور بھتیجوں کو قتل کر ڈالا۔ بھائیوں اور تخت کے تمام امیدواروں کو قتل کرنے کا یہ قانون سلطان محمد فاتح نے اپنے دور حکومت میں نافذ کیا تھا جس کا مقصد ایک بادشاہ کے مرنے کے بعد خانہ جنگی سے بچنا تھا۔
[ترمیم] فتوحات
سلیم اول سلطنت عثمانیہ کے عظیم فاتحین میں سے ایک تھا اور اس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس نے مغرب کی جانب پیش قدمی کے بجائے مشرق کو میدان جنگ بنایا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ جب تک سلطنت عثمانیہ کے برابر میں صفوی اور مملوک حکومتیں قائم ہیں تب تک یورپ میں پیش قدمی نہیں کی جاسکتی۔ اس نے جنگ مرج دابق اور جنگ ردانیہ میں مملوکوں کو شکست دے کر شام، فلسطین اور مصر کو عثمانی قلمرو میں شامل کیا۔ مملوکوں کی اس شکست سے حجاز اور اس میں واقع مکہ و مدینہ کے مقدس شہر بھی عثمانی سلطنت کے زیر اثر آگئے۔ اس فتح کے بعد قاہرہ میں مملوکوں کے زیر نگیں آخری عباسی خلیفہ المتوکل ثالث سلیم اول کے ہاتھوں خلافت سے دستبردار ہوگیا اور یوں خلافت عباسی خاندان سے عثمانی خاندان کو منتقل ہوگئی۔
سلیم نے اپنے لئے حاکم الحرمین کے بجائے خادم الحرمین الشریفین کا لقب پسند کیا اور خلافت حاصل کرکے خلیفہ و امیر المومنین کہلایا۔
مصر سے نمٹنے کے بعد سلیم نے ایران کی صفوی سلطنت کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور شاہ اسماعیل اول کو جنگ چالدران میں بدترین شکست دی اور صفویوں کے دارالحکومت تبریز پر بھی قبضہ کرلیا تاہم اس نے قدرت پانے کے باوجود ایران کو اپنی سلطنت میں شامل نہیں کیا۔ سلیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اہل تشیع سے شدید نفرت کرتا تھا اور ایران میں اہل تشیع کی اکثریت کو ایران پر قبضہ نہ کرنے کی اہم ترین وجہ سمجھا جاتا ہے۔
اپنے دور حکومت میں سلیم نے عثمانی سلطنت کا رقبہ 25 لاکھ مربع کلومیٹر سے 65 لاکھ مربع کلومیٹر تک پہنچادیا۔
مصر کی مہم سے واپسی کے بعد سلیم نے جزیرہ رہوڈس پر چڑھائی کی تیاری شروع کی تاہم اس دوران وہ بیمار پڑ گیا اور 9 سال تک پایۂ تخت سنبھالنے کے بعد انتقال کرگیا۔ اس وقہ اس کی عمر 54 سال تھی۔
سلیم فارسی اور ترک دونوں زبانوں میں شاعری بھی کرتا تھا۔
سلیم ایک بہترین فاتح ہونے کے باوجود ظالم شخص تھا اس لئے ترک اسے یاووز یعنی مہیب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس کا دور حکومت مختصر لیکن فتوحات کے لحاظ سے سب سے اہم تھا۔
دورِ عروج (1299ء–1453ء) | عثمان اول - اورخان اول - مراد اول - بایزید اول - محمد اول - مراد دوم - محمد دوم |
---|---|
دورِ توسیع (1453ء–1683ء) | بایزید دوم - سلیم اول - سلیمان اول - سلیم دوم - مراد سوم - محمد سوم - احمد اول - مصطفی اول - عثمانی دوم - مراد چہارم - ابراہیم اول - محمد چہارم |
دورِ جمود (1683ء–1827ء) | سلیمان دوم - احمد دوم - مصطفی دوم - احمد سوم - محمود اول - عثمان سوم - مصطفی سوم - عبدالحامد اول - سلیم سوم - مصطفی چہارم - محمود دوم |
دورِ زوال (1828ء–1908ء) | عبدالمجید - عبدالعزیز - مراد پنجم - عبدالحامد ثانی - محمد پنجم |
خاتمہ (1908ء–1923ء) | محمد ششم |
یہ ابھی نامکمل مضمون ہے۔آپ اس میں ترمیم کرکے مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔