سلطنت عثمانیہ
وکیپیڈیا سے
سلطنت عثمانیہ کی تاریخ | |||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
ادوار: | |||||||||
عروج (1299–1453) | |||||||||
توسیع (1453–1683) | |||||||||
جمود (1683–1827) | |||||||||
زوال (1828–1908) | |||||||||
خاتمہ (1908–1922) | |||||||||
مزید دیکھئے: | |||||||||
|
|||||||||
سلطنت عثمانیہ یا دولت عالیہ عثمانیہ 1299ء سے 29 اکتوبر 1923ء تک قائم وہ عظیم سلطنت تھی جسے مغرب میں ترک سلطنت کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔
اپنے زمانہ عروج پر یہ سلطنت تین براعظموں پر محیط تھی جس میں جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ شامل تھے جن کے اکثر علاقوں پر اس کا قبضہ 19ویں صدی کے اواخر اور 20 ویں صدی کے اوائل تک برقرار رہا۔ مغرب میں جبل الطارق سے لےکر مشرق میں بحیرہ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے لے کر یوکرین کے دارالحکومت کیف اور جنوب میں سوڈان اور یمن تک پھیلے 39 ممالک (ترک قبرص ملاکر 40) تاریخ میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہے ہیں۔ بحیرہ روم کے ساحلوں کے ساتھ قائم اس آخری عظیم سلطنت کا دارالحکومت قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) تھا۔
16ویں اور 17ویں صدی میں سلطنت عثمانیہ بام عروج پر پہنچی جس دوران اس نے دو مرتبہ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کا محاصرہ کیا اور اسپین اور اٹلی کے ساحلوں پر فتوحات بھی حاصل کیں۔ عثمانیوں کا بحیرہ روم کے بیشتر حصے پر اثر ورسوخ تھا جبکہ بحیرہ اسود، بحیرہ قلزم اور خلیج فارس کے علاوہ بحر ہند کے چند علاقوں پر اس کی مکمل بالادستی تھی۔ عثمانی بحریہ کے جہاز مغرب میں جزائر برطانیہ، جزائر فارو اور آئس لینڈ اور مشرق میں بھارت، انڈونیشیا اور ملائیشیا تک سفر کرتے دیکھے گئے۔
سلطنت عثمانیہ کے 7ویں فرمانروا محمد ثانی نے 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کرکے بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا اور تاریخ میں فاتح کے نام سے مشہور ہوئے۔
سلطنت عثمانیہ کو فتح قسطنطنیہ کے ذریعے بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کرنے، خلافت حاصل کرنے اور وسط یورپ تک فتوحات حاصل کرنے کے اعزازات حاصل ہیں۔
20 ویں صدی کے آغاز تک کئی علاقے کھونے کے بعد زوال کی جانب گامزن سلطنت عثمانیہ کا پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد خاتمہ کردیا گیا۔ عثمانی افواج نے جنگ عظیم اول کے آغاز میں جنگ گیلی پولی اور محاصرہ کوت میں اہم فتوحات حاصل کیں اور جنگ کے ابتدائی دو سالوں میں معاشی مسائل اور وسائل کی کمی کے باوجود سلطنت کو عظیم نقصان نہیں اٹھانا پڑا لیکن 1916ء میں عربوں کی بغاوت نے عثمانیوں کے لئے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ عثمانی سلطنت نے 30اکتوبر 1918ء کو معاہدہ موڈروس کے تحت مشرق وسطی میں ہتھیار ڈال دیئے (جنگ کے اختتام تک یمن اور آذربائیجان کے علاقے سلطنت کے قبضے میں رہے) ۔ پہلی جنگ عظیم کے فاتحین نے ترک بندرگاہوں پر قبضے کے لئے اپنے بحری جہاز روانہ کئے جبکہ عثمانی افواج باقاعدہ طور پر معطل کردی گئی تھیں۔
لیکن تاریخ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وسطی اناطولیہ میں مقیم نویں ترک فوج نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ اور پیغام بھیجا کہ جس کسی کو بھی انکے ہتھیاروں سے دلچسپی ہو وہ خود آکر ان سے چھین لیں۔ وہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ مصطفی کمال کو ان کے پاس بھیجا گیا کہ وہ انھیں ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کریں لیکن مصطفی کمال خود ان کے ساتھ مل گیا۔ اس ترک فوج نے اتحادی فوجوں کو شکست دی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کیا۔ اتحادیوں نے موجودہ ترکی کی حدود کے اندر جدید ترکی کو تسلیم کر لیا۔
مصطفی کمال نے ترکی میں جمہوریت کا اعلان کیا اور اصلاحات رائج کیے۔ ترکی کا رسم الخط رومن کر دیا گیا۔ پرانے القابات ختم کر دیے گۓ صنعتی اصلاحات کی گیں۔
ترک سلطان اور اس کے اہل خانہ برطانیہ میں جلا وطن ہو گۓ۔ 50 سال بعد 1974ء میں ترکی کی قومی اسمبلی نے سابق عثمانی بادشاہوں کی اولاد کو ترک شہریت حاصل کرنے کی اجازت دے دی۔ اس وقت حرم عثمانی کے سربراہ ارطغرل عثمان پنجم ہیں جو 2004ء میں ترکی واپس آئے تھے۔
[ترمیم] عثمانی دارالحکومت
سغوط 1299ء تا 1326ء
بروصہ 1326ء تا 1365ء
ادرنہ 1365ء تا 1453ء
قسطنطنیہ (استنبول) (1453ء تا 1922ء)
رقبہ بوقت عروج 1595ء : 19.9 ملین اسکوائر کلومیٹر
[ترمیم] سلاطین عثمانی
طلوع سلطنت 1299ء تا 1453ء
توسیع سلطنت 1453ء تا 1683ء
بایزید ثانی
سلیم ثانی
مراد سوم
محمد سوم
احمد اول
مصطفی اول
عثمان ثانی
مراد چہارم
جمود 1683ء تا 1827ء
ابراہیم اول
محمد چہارم
سلیمان ثانی
احمد ثانی
مصطفی ثانی
احمد سوم
محمود اول
عثمان سوم
مصطفی سوم
مصطفی چہارم
زوال سلطنت 1828ء تا 1908ء
عبدالمجید اول
عبدالعزیز
مراد پنجم
عبدالحمید ثانی
محمد پنجم
خاتمہ 1908ء تا 1923ء
محمد ششم