ڈیرہ غازی خان
وکیپیڈیا سے
ڈيره غازی خان[[1]] [[2]] |
آبادى | 1643118 |
رقبعه | 3038410 |
انتظامى پوزشن | |
فون كوڈ | 064 |
پوسٹ كوڈ | 32200 |
غازی خان کی دھرتی ڈیرہ غازی خان تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے مشہور رہی ہے، پندرہویں (15) صدی عیسوی میں بلوچ قبائل نے اس دھرتی کو اپنا مستقر بنایا، ایک ممتاز بلوچی سردار میر حاجی خان میرانی نے اپنے لاڈلے بیٹے غازی خان کے نام پر، میں دریائے سندھ ، میں غازی خان کا یہ ڈیرہ دریائے سندھ کے کٹاوُ کی لپیٹ میں آگیا اور اس وقت 1887کے مغربی کنارے پر ڈیرہ غازی خان کی بنیاد رکھی ،?? کلو میٹر دور مغرب میں واقع ہے بنیاد رکھی ڈیرہ کا لفظ فارسی 15کے انگریز حاکموں نے موجودہ ڈیرہ غازی خان جو پرانے ڈیرہ سے تقریباّ زبان میں رہائش گاہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، بلوچی ثقافت میں ڈیرہ کو قیام گاہ کے ساتھ مہمان خانہ یا وساخ کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، سرائیکی زبان میں لفظ فارسی سے آیا ہے ، محل و قوع کے لحاظ سے ڈیرہ غازی خان ملک کے چاروں صوبوں کے وسط میں واقع ہے، اس کے مغرب میں کوہ سلیمان کا بلند و بالا سلسلہ ہے ، شمال میں تھل اور مشرق میں سندھ ٹھاٹھیں مار رہا ہے، روحانی حوالے سے مغرب میں حضرت سخی سرور ، شمال میں خواجہ سلیمان تونسوی اور جنوب سے شاعر حسن و جمال خواجہ غلام فرید کا روحانی فیض جاری ہے، طبقات الارض کے حوالے سے یہ خطہ پہاڑی، دامانی ، میدانی اور دریائی علاقوں پر مشتمل ہے، آب و ہوا کے لحاظ سے سردیوں میں سرد اور گرمیوں میں گرم مربوط خطہ ہے علاقے کے رہائشیوں کی اکثریت سرائیکی زبان بولتی ہے جبکہ ارد گرد کے کچھ علاقوں میں سرائیکی کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے، لغاری ، کھوسہ، مزاری، دریشک ، گورچانی، کیتھران، بزدار اور قیصرانی یہاں کے تمندار ہیں ، بلوچ قبیلوں کی یہ تقسیم انگریز حکمرانوں نے کی ، انہوں نے قبائیلی سرداروں کو اختیارات دئیے ، عدلیہ کا کام جرگے نے سنبھالا جس کی نشتیں ڈیرہ غازی فٹ بلند ہے منعقد ہوتی تھیں ، انتظامیہ کے لئیے بارڈر ملٹری پولیس 6470خان کے صحت افزا، مقامفورٹ منرو جو سطع سمندر سے ، میں ڈیرہ اور راجن پور کے تمنداروں کے مشترکہ فیصلے 1950بنائی گئی جس کی ملازمتیں انہی نو بااثر خاندانوں میں تقسیم ہوتی ہیں ، کے مطابق یہ علا قہ پنجاب میں شامل ہوا، سن 1925 میں نواب آف بہاولپور اور گورنر جنرل غلام محمد کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے مطابق ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے اضلاع ریاست بہاولپور میں شامل ہوئے لیکن بعد میں ڈیرہ اور مظفرگڑھ کے اضلاع ،ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ ،راجن پور کے اضلاع پر 1982بہاولپور سے علیحدہ کر کے ملتان ڈویژن میں شامل کئے گئے، یکم جولائی مشتمل علےقے کو ڈویژن کا درجہ دیا گیا،میں بننے والے اس شہر کو منفرد اور ایک خاص نقشے کے مطابق آباد کرنے کا پروگرام بنایا گیا ، شہر کی تمام سڑکیں ، گلیاں اور 1900 مختلف بلاکوں میں تقسیم کیا گیا ہے نقشے کے مطابق ہر مکان کم از کم پانچ66چوک شرقاّ ، غرباّ اور شمالاّ جنوباّ بنائے گئے ہیں ، شہر کو پلاٹ رکھے گئے تھے لیکن اولاد اور وارثوں میں تقسیم اور خریدو فروخت کے باعث آج کل 112مرلے کا رکھا گیا ، ہر بلاک میں تقریباّ صورت حال قدرے مختلف ہے ، ڈیرہ کی سرزمین معدنی وسائل سے مالا مال ہے ارد گرد کا علاقہ سنگلاخ پہاڑوں کے باعث ناقابل کاشت ہے، علاقے کے نوجوانوں کی اکثریت روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رُخ کرتی ہے، تونسہ کے علاقے سے گیس اور تیل نکلتا ہے، علاقے میں یورینیم جیسی کے باعث پر تیار کئے گئے پاکستان آج ایٹمی طاقت بن چکا ہے ، روڑہ بجری ، خاکہ اور پتھر کے تاجر کروڑوں روپے کما رہے ہیں الغازی ٹریکٹرپلانٹ فیٹ ٹریکٹراور ڈی جی سیمنٹ اس علاقے کی پہچان ہے، اندرون ملک سفر کےلئے ریل ، بسوں اور ویگنوں سے ملک کے چاروں صوبوں سے رابطہ کیا جا سکتا ہے چلتن ایکسپریس کوئٹہ سے لاہور، لاہور سے کوئٹہ کےلئے براستہ ڈیرہ غازی خان چلتی ہے ، خوشحال خان خٹک ایکسپریس کراچی سے پشاور اور پشور سے کراچی براستہ ڈیرہ چلتی ہے ،
فہرست |
[ترمیم] تعليم اور كھيل
کوئٹہ روڈ پر سخی سرور سے پہلے جدید ائر پورٹ تعمیر کیا گیا ہے جہاں سے کراچی ، بہاولپور، لاہور اور اسلام آباد کے لئے پروازیں چلتی کلو میٹر کے فاصلے پر جنوبی پنجاب کا سرد ترین تفریحی مقام فورٹ منرو ہے، شہر میں تفریحی سہولتوں75ہیں کوئٹہ روڈ پر ہی تقریباّ کےلئے سٹی پارک ،غازی پارک، وائلڈ لائف پارک، چند کھیل کے میدان اور آرٹ کونسل ہے، بلدیہ کی لائبریری میں کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے علاقے کے لوگ بشمول خواتین تعلیم کے حصول میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں،شہر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ ایلیمنٹری کالجز ہیں ، تین سالہ ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرز کے سخی سرور روڈ پر انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی قائم ہے، جبکہ لڑکوں اور لڑکیوں کےلئیے علیحدہ علیحدہ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں ریلوے روڈ پر واقع گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، گورنمنٹ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین، گورنمنٹ انسٹیٹیوٹ آف کامرس برائے خواتین ، ایگریکلچر سکول وغیرہ شامل ہیں شہر میں پرائیوٹ لا، کالجز ،پرائیویٹ ہومیو پیتھک کالج ، درجنوں کمپیوٹر کے تربیتی ادارے اور درجنوں پرائیویٹ سکول ہیں جبکہ ڈویژنل پبلک سکول اور کالج گورنمنٹ کالج انٹر کالج ،سنٹرل ماڈل سکول، گورنمنٹ کمپری ہینسو سکول،اسلامیہ ہائی سکول اور لڑکوں اور لڑکیوں کے لئیے ، گونمنٹ ہائی اور دیگر تمام تعلیمی ادارے شہر میں علم کے فروغ کے لئیے سرگرم عمل ہیں، جامعہ رحمانیہ اسلامیہ اور کلیتہ النبات ، 1،2،3سکول نمبر للدراسات الا اسلامیہ ممتاز دینی مدارس ہیں والی بال یہاں کے لوگوں میں مقبول کھیل ہے لیکن اب کرکٹ اس کی جگہ لے رہا۔
[ترمیم] كهانے
مقامی لوگ ناشتہ میں حلوہ پوری، دوپہرکو سری پائے شوق سے کھاتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے تک گھروں میں ڈرائنگ روم یا بیٹھک نہیں ہوتی تھی بلکہ گھروں کے آگے یا بلاکس کے چوک میں رکھی ہوئی بڑی بڑی چارپائیاں جنہیں مقامی زبان میں ( ہماچہ ) کہتے ہیں، ڈرائنگ روم یا بیٹھک کے نعم البدل کے طور پر استعمال ہوتی تھیں جن پر بیٹھ کر رات گئے تک گپ شپ اور حال احوال کرنا مقامی لوگوں کے مزاج اور ثقافت کا حصہ ہے، مگر اب دور بدل رہا ہے ذہن تبدیل ہو رہے ہیں ثقافت کو بھی نئے دور کے مطابق ڈھالا جا رہا ہے چارپائی اور ہماچے کی جگہ اب ڈرائنگ رومز اور بیٹھکوں نے لے لی ہے۔
[ترمیم] حكومتى كاركردگى
زیر زمین پانی کافی کڑوا ہے پینے کا صاف پانی ڈیرہ غازی خان کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے شہر سے کم و بیش دس کلو میٹر دور پمپ لگے ہوئے ہیں جہاں سے پانی پائپوں کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ پمپ اکثر خراب رہتے ہیں اور پھر پائپ لائنوں کے پھٹ جانے سے سیوریج ملا پانی پینے کو ملتا ہے۔ شہریوں کی اکثریت گندے پانی کی وجہ سے گردوں اور دیگر امراض کو چیف ایگزیکٹیو پرویزمشرف نے ہینے کے صاف پانی کی فراہمی کے سلسلے میں لاکھوں روپے کی لاگت ٢٠٠٠میں مبتلا ہے۔ گیارہ اگست سے لگائے گئے واٹر پیور لیفیکیشن پلانٹ کا افتتاح کیا اور اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کے بعد تین اور پمپس بھی چالو کئے گئے جنہیں مشرف واٹر پمپس کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مگر سابقہ روایات کے مطابق محکمہ پبلک ہیلتھ، تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کی عدم توجہی کی بنا پر پانی صاف کرنے کے یہ پلانٹ بے کار ہو رہے ہیں۔
ڈیرہ غازی خان میں صفائی ستھرائی کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ ہر طرف گندگی کے ڈھیر پڑے نظر آتے ہیں۔ سیوریج یہاں کا ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے جسے کسی بھی دور میں حل نہیں کیا گیا، اکثر محلوں، بلاکوں اور روڈوں پر سیوریج کا پانی کھڑا ہوتا ہے۔ چوک چورہٹہ، کے مکین سیوریج کی وجہ سے انتہائی بے سجاد آباد، غریب آباد، نورنگ شاہ، مستوئی کالونی، بھٹہ کالونی، نیوماڈل ٹاؤن اورگلستان سرور کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ سیوریج کا پانی اب ان کے گھروں میں داخل ہو رہا ہے۔ سابقہ ادوار میں آٹھ کروڑ روپے کی لاگت سے شہر کی سڑکیں تعمیر کی گئیں کچھ ہی عرصے بعد سڑکیں ناقص میٹریل کے استعمال کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئییں، جن کی مرمتی ازحد لازمی ہے ورنہ ایک بار پھر ان کی تعمیرنو کرنی پڑے گی۔
شہر میں سرکاری ہسپتال کے علاوہ درجنوں پرائیویٹ ہسپتال موجود ہیں۔ سرکاری ہسپتال میں سالانہ لاکھوں روپے کی ادویات کی خریداری کے باوجود سر درد کی گولی دستیاب نہیں ہوتی۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا سنہرا خواب اور کروڑوں روپے کی گرانٹس کے باوجود ڈیرہ غازی خان کے عوام کی تقدیر نہیں بدل سکی، اس سب کے باوجود بھی ڈیرہ کے شہری اپنے سنہرے مسقتبل اور اپنی تقدیر بدلنے کا خواب ضرور دیکھتے ہیں۔ فاروق لغاری نے اپنے عہد میں ڈیرہ غازی خان کے نام پر ایک ہوائی اڈہ اس شہر سے کافی دور اپنے علاقے چوٹی کے نزدیک بنوایا تھا۔
[ترمیم] تاريخ
ضلع ڈیرہ غازی خان اپنے محل وقوع، سندھی، پنجابی، بلوچی اور پٹھانی زبان کے ساتھ علاقائی تہذیبوں کا سنگم ہونے کی وجہ سے پاکستان کی وحدت کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس کی اس حیثیت کے باوجود اس علاقے کو اب تک کی حکومتوں نے مسلسل نظرانداز کئے رکھا جس کی وجہ سے یہ ضلع اپنا صحیح مقام حاصل نہیں کر سکا اور ہر معاملے میں پسماندہ ہے، ڈیرہ غازی خان کو قومی اسمبلی میں دو تین دفعہ دارالحکومت بنانے کی تجویز پیش کی گئی، کیونکہ چاروں صوبوں کا مقام اتصال ہونے کے علاوہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے مگر افسوس کہ دارالحکومت تو بہت دور کی بات ہے اس ضلع کو اس کے جائز حقوق بھی نہیں دیئے گئے۔ اسلام آباد، آزادکشمیر اور اس کے گردونواع میں آنے والے حالیہ زلزلے کے بعد ایک بار پھر یہ افواہ زیرگردش ہے کہ ڈیرہ غازی خان کو دارالحکومت بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں مگر بات وہی ہے کہ ‘ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک،۔ ضلع ڈیرہ غازی خان کی عوام نے یہاں کے سیاستدانوں کو عروج تک پہنچایا، فاروق احمد خان لغاری صدارت کی سیٹ پر، ذوالفقار علی خان کھوسہ سینئروزیر پنجاب اور گورنر پنجاب کی سیٹ پر فائز رہے چکے ہیں مگر اس کے باوجود ترقی ڈیرہ غازی خان کو چھو تک نہیں گزری سابق صدر فاروق احمد خان لغاری کے دور میں ڈیرہ غازی خان میں کچھ کام ہوا اس کے بعد سے اب تک ایک طویل خاموشی چھائی ہوئی ہے، جسے صدر پرویز مشرف کی روشن خیالی اور شوکت عزیز کی جدیدیت بھی دور نہ کر سکی۔ یہ تو تھا ڈیرہ غازی خان کا مختصر سا تعارف، اب آئیے ڈیرہ غازی خان کی تاریخ کی طرف۔ ڈیرہ غازی خان کی تاریخ بہت پرانی ہے، اس علاقے میں کئی سوسال پہلے کی تہذیبوں کے آثار اب بھی پائے جاتے ہیں، موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی طرح ڈیرہ غازی خان بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے، اس میں موجود کھنڈرات کی اگرچہ کھدائی نہیں ہوئی لیکن اوپر کی تہہ سے حاصل ہونے والی اشیاء کئی ہزار سال پہلے کی داستان سنا رہی ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کی باقاعدہ تاریخ اور حوالہ جات سکندراعظم کے حملے سے پہلے کے زمانے کے نہیں ملتے کیونکہ آریاؤں نے یہ علاقے تباہ کر دیئے تھے سکندراعظم کے حملہء ہندوستان کے وقت اس علاقے پر داریوش نامی ہندو بادشاہ کی حکومت تھی، سکندراعظم ہندوستان میں لوٹ مار اور اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد اس علاقے سے گزرا، اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس نے کوٹ مٹھن کے قریب سے دریائے سندھ کو عبور کیا اور ڈیرہ غازی خان میں داخل ہوا۔ ان دنوں ڈیرہ غازی خان کا علاقہ داریوش نے اپنی چہتی بیٹی نوشابہ کو دے دیا تھا، کہا جاتا ہے کہ نوشابہ سکندراعظم کی بیوی بنی۔ سکندراعظم کی واپسی کے دو سال بعد پنجاب اور سندھ میں بغاوت کر کے سکنداعظم کی حکومت ختم کر دی گئی، اس بغاوت کا روح رواں مگدہ کے راجہ کا باغی جرنیل چندرگپت موریا تھا، چندرگپت موریا اس علاقے کا حکمران بن گیا، چندرگپت کے خاندان ق م سے لیکر پانچویں صدی تک اس علاقے میں باختری، یونانی، پارتھین، ساکا، کشان، حیطال، ہن، گوجر، ساسانی اور مانی نام کے خاندانوں کی حکومت رہی۔ مانی خاندان کے خاتمے پر یہ علاقے ایرانی سلطنت میں شامل ہو گئے، پانچویں صدی کے آخر میں ایرانی سلطنت کمزور پڑ گئی جس کی وجہ سے یہاں رائے خاندان نے بغاوت کر کے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ رائے خاندان کا پایہ تخت ایلور (اروڑ) تھا جس کے کھنڈرات آج بھی جامپور میں داجل کے قریب موجود ہیں۔ رائے خاندان کی حکومت کے وقت ملتان سے لیکر کشمیر تک کے علاقے پر چج نامی خاندان کی حکومت تھی۔ چج حاکم نے آخری رائے حکمران کی رانی ء کا ہے۔ چج نے باقی تمام زندگی اس علاقے کی ترقی میں گزاری۔ چج نے اس علاقے پر چالیس سال سے زیادہ عرصہ تک حکمرانی کی۔ چجکے بعد چج کا بھائی چندا اس علاقے کا حکمران بنا۔ چندا کی موت کے بعد اس کا بھتیجا اور چج کا بیٹا داہر حکمران بنا۔ داہر ایک ظالم شخص تھا۔ اس نے عربوں کا ایک جہاز لوٹ لیا، اس پر حجاج بن یوسف ء میں داہر کا پایہ تخت الور فتح کر لیا، اس طرح برصغیر میں اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ محمد بن قاسم کو عبدالملک نے بلا بھیجا اور ذاتی عناد کی بنا پر قید میں ڈال دیا اور اسی قید میں ہی برصغیر میں اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھنے والا محمد بن قاسم فوت ہو گیا۔ برصغیر میں اسلامی مملکت کے قیام کے بعد چالیس برس تک سندھ اور اس علاقے کے لئے حکمران بغداد سے آتے رہے کیونکہ امیوں نے اس علاقے پر اپنی گرفت مضبوط رکھی، لیکن عباسیوں کے سلطنت کے قبضے کے بعد سندھ پر بغدادی حکومت کی گرفت کمزور پڑ گئی، کمزور نظم و نسق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں قرامطی عرب قابض ہو گئے جن کا مرکز ملتان تھا۔ جس وقت سبکتگین غزنی کا حکمران تھا اس وقت اس علاقے پر حمید لودھی کی حکومت تھی۔ حمید لودھی سبکتگین کے خلاف ملتان کی حکومت کی تمام پونجی جے پال کے حوالے کر دیتا اور اس کے ساتھ مل کر سلطنت غزنی کے علاقوں میں لوٹ مار کرتے، تنگ آ کر سبکتگین نے ملتان پر حملہ کر دیا، جےپال کو شکست کا سامنا کرنا پڑااور حمیدلودھی نے خراج کے عوض صلح قبول کر لی۔ اس صلح کے نتیجے میں وہ ہر سال غزنی حکومت کو خراج دیا کرتا تھا لیکن حمیدلودھی کا پوتا ابوالفتح داؤد ہندو راجہ اننگ پال کی حمایت کرنے لگا اور دونوں مل کر محمود غزنوی کے علاقوں میں لوٹ مار مچانا شروع کر دی۔ آخر محمود غزنوی نے ملتان پر حملہ کر دیا، ابوالفتح داؤد بھاگ گیا۔ اہل شہر کو امان ملی، مگر سلطان محمود غزنوی کے حکم پر قرامطیوں کا قتل عام ہوا۔ سلطان نے ملتان کا الحاق غزنی سے کر دیا۔ محمود غزنوی کی وفات کے بعد اس کا بیٹا سلطان محمود حکمران بنا مگر نو سال کے بعد اسے قتل کر دیا گیا اس کے بعد سات حکمران اور بنے مگر سب یکے بعد دیگرے یا تو قتل ہوئے یا طبعی موت مر گئے۔ سلطان شہاب الدین غوری جب ء میں چنگیز خان سلطان جلال الدین خوارازم کا تعاقب کرتے ہوئے دریائے سندھ کے کنارے پہنچ گیا۔ سلطان جلال الدین اور اس کے بقیہ ساتھیوں نے گھوڑوں کے ذریعے دریا عبور کیا مگر تاتاری اتنے بڑے دریا کو عبور کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔ چنگیز خان کی آمد کے بعد یہ علاقہ تاتاریوں کی آماجگاہ بنا رہا۔ اگرچہ بلبن عہد حکومت میں غیاث الدین بلبن اور علاؤالدین بلبن نے سرحدی چوکیوں کو مضبوط کر دیا تھا مگر یہ چوکیاں مغربی کنارے پر تھیں اس لئے سندھ کا مشرقی کنارہ اور ادھر کا سارا علاقہ مختلف ء تیمور کے پوتے پلیرمحمد نے ملتان پر قبضہ کر لیا اور سندھ کے تمام مغربی کناروں پر قابض ہو گیا۔ اس اثناء میں تیمور دہلی پر حملہ آور ہوا اور جاتے وقت تمام خزانے ساتھ لے گیا۔ تیمور کے حملے کے بعد ہندوستان میں مستقل حکومت قائم نہ ہو سکی۔ ڈیرہ غازی خان میں ابوالفتح لودھی کے خاندان نے سر اٹھایا۔ ابوالفتح کے خاندان کے لوگ ناہڑ، بارکھان، ہڑند، داجل، کن پور اور سیت پور کے علاقوں میں رہتے تھے۔ ان میں عیٰسی خان نے ناہڑ، کن پور اور سیت پور پر جبکہ بہادر خان نے ہڑند اور داجل کے علاقے پر قبضہ کر لیا اور اپنی حکومت قائم کر لی۔ بہادر خان کی حکمرانی کے کچھ عرصہ بعد اس علاقے سے ایک شخص محمد خان اپنے خاندان کے ساتھ ٹھٹھہ چلا گیا اور والیء ٹھٹھہ کی ملازمت اختیار کر لی۔ والیء ٹھٹھہ نے محمدخان سے خوش ہو کر اس کو رانی کے علاقے کا امیر بنا دیا، اس وجہ سے اس کی اولاد امیررانی کہلانے لگی جو بعد میں مررانی کہلانے لگے۔ محمدخان کے بیٹے حاجی خان نے دریائے سندھ کے کنارے آباد علاقوں پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کر لی اور اس علاقے ء میں اپنے نامور اور ء اور ء کے درمیانی عرصہ میں وفات پائی۔ غازی خان اول کی وفات کے بعد اس کی اولاد چودہ پشتوں تک اس علاقے پر حکمران رہی اور حاجی خان اور غازی خان کے القاب اختیار کئے۔ حاجی خان ہفتم نے وفات کے وقت اپنے وزیر گوجر خان کے ہاتھ میں اپنے سات سالہ فرزند غازی خان ہفتم کا ہاتھ دے کر اس کی حفاظت اور پرورش کی ہدایت کی مگر اس کی وفات کے بعد گوجر خان کی نیت بدل گئی اور اس نے غازی سال کی عمر میں ء میں ڈیرہ غازی خان آیا۔ گوجر خان نے اس کی حمایت کی، ء میں نادرشاہ قتل ہوا تو پنجاب کی حکومت احمدشاہ ابدالی کے قبضے میں آئی۔ مرہٹوں نے احمدشاہ ابدالی کے بیٹے کو لاہور سے نکال کر پورے مشرقی پنجاب پر قبضہ کر لیا اور اکثر علاقے تباہ کر دیے۔ اس کے جواب میں احمدشاہ ابدالی نے پنجاب پر دوبارہ ء میں پانی پت کی تیسری میں احمدشاہ ابدالی نے مرہٹوں کی طاقت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاش پاش کر دیا۔ واپسی پر احمدشاہ ابدالی نے داجل اور ہڑند کا سارا علاقہ والیء قلات میرنصیرخان کو دے دیا۔ کن پور اور روجھان کے علاقے سندھ میں شامل ہوگئے۔ سیتپ پور اور راجن پور کی جاگیر راجو نامی سپاہی کے حوالے ہوئی۔ اسی راجو نے راجن پور ء میں ڈیرہ غازی خان پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح یہ علاقے دربارلاہور کے زیرتسلط آ گئے، سکھ آگے بلوچستان کی طرف پیش قدمی کرنا چاہتے تھے مگر بلوچوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کو ڈیرہ غازی خان سے آگے نہ بڑھنے دیا، اسی دوران ملتان میں خانہ جنگی کے حالات پیدا ہو گئے، سکھ ملتان کی طرف متوجہ ہوئے تو ایک مقامی سردار جس کا نام کوڑا خان تھا ڈیرہ غازی خان پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت انگریز پورے برصغیر میں چھائے ہوئے تھے۔ کوڑا خان نے یہ علاقہ انگریز عملداری میں دے ء میں ہوا۔ انگریزوں کی سوسالہ دورحکومت میں ڈیرہ غازی خان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، اس کی پہلے کی سی خوبصورتی باقی نہ رہی۔ مررانی عہدحکومت میں شہر ڈیرہ غازی خان مغربی پنجاب میں ملتان کے بعد سب سے خوبصورت شہر تھا اور صنعت وحرفت کی تجارت کا بہت بڑا مرکز تھا۔ مررانی عہدحکومت میں زراعت پر خاص توجہ دی گئی ء میں دریائے سندھ کی موجوں کی نظر ہوا، جس کی پیشین گوئی بہت پہلے کی گئی تھی، اسپیشین گوئی میں یہ ہدایت بھی شامل تھی کہ غازی خان اول اپنا مقبرہ موجودہ ڈیرہ غازی خان میں بنوائے کیونکہ پیشین گوئی کے مطابق نیا شہر مقبرے کے چاروں طرف پھیلے گا اور ایسا ہی ہوا۔ نیا شہر چورہٹہ کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ غازی خان کا مقبرہ چورہٹہ میں آج بھی موجود ہے۔ یہ ہشت پہلو قلعہ نما مقبرہ ہے جس کی اوپر کی دو منزلیں زلزلہ کی وجہ سے گر گئی تھیں، اس مقبرے کے گردا گرد ایک فصیل بنائی گئی تھی اور ایک خوبصورت باغ بھی تھا جو کب کے ختم ہو چکے ہیں، اب اس جگہ قبرستان ہے، کبھی کبھی قبریں کھودتے وقت فصیل کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں۔ جب مقبرہ تعمیر ہوا تو ء میں آباد ہوا۔ ڈیرہ غازی خان نہ صرف محل وقوع کے لحاظ سے قلب مملکت کا درجہ رکھتا ہے۔ بلکہ آثار قدیمہ سے بھی بھرا پڑا ہے۔ اگر ان کھنڈرات کی کھدائی کی جائے تو تاریخ کے گم شدہ واقعات مل سکتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے علاوہ ڈیرہ غازی خان معدنی دولت سے بھی مالامال ہے، یہاں کوئلہ جپسم، گندھک، مٹی کا تیل، قدرتی گیس، لوہا، یورینیم، چونے کا پتھر، سرخ پتھر اور کئی قسم کی معدنیات کے وسیع ذخائر دریافت ہو چکے ہیں، غرضیکہ ڈیرہ غازی خان کا یہ علاقہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے قلب پاکستان کہلایا جا سکتا ہے۔
[ترمیم] بیرونی روابط
[ترمیم] مزید
اٹک | بہاولنگر | بہاولپور | بھکر | چکوال | ڈیرہ غازی خان | چکوال | فیصل آباد | گوجرانوالا | گجرات | حافظ آباد | جھنگ | جہلم | قصور | خانیوال | خوشاب | لاہور | لیہ | لودھراں | منڈی بہاؤ الدین | میانوالی | ملتان | مظفر گڑھ| ناروال| ننکانہ صاجب| اوکاڑہ| پاکپتن| رحیم یار خان| راجن پور| راولپنڈی| ساہیوال| سرگودھا| شیخوپورہ| سیالکوٹ| ٹوبہ ٹیک سنگھ| وہاڑی
زمرہ جات: شہر (پاکستان) | پنجاب | شہر