خلافت عباسیہ
وکیپیڈیا سے
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ کہلاتی ہے۔ جس کا قیام 750ء (132ھ) میں عمل میں آیا اور 1258ء (686ھ) میں اس کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ خلافت ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی جو بنو امیہ کے خلاف تھی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد برسر اقتدار آگئی۔
عباسیوں کی حکومت بھی امویوں کی طرح شخصی اور موروثی تھی اور ولی عہدی کا بھی وہی طریقۂ کار تھا جو بنو امیہ نے اختیار کیا ہوا تھا۔
خاندان عباسیہ نے دارالحکومت دمشق سے بغداد منتقل کیا اور دو صدیوں تک مکمل طور پر عروج حاصل کئے رکھا۔ زوال کے آغاز کے بعد مملکت کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی جن میں ایران میں مقامی امراء نے اقتدار حاصل کیا اور المغرب اور افریقیہ اغالبہ اور فاطمیوں کے زیر اثر آگئے۔
عباسیوں کی حکومت کا خاتمہ 1258ء میں منگول فاتح ہلاکو خان کے حملے کے ذریعے ہوا۔ تاہم خلیفہ کی حیثیت سے ان کی حیثیت پھر بھی برقرار رہی اور مملوک سلطان ملک الظاہر بیبرس نے خاندان عباسیہ کے ایک شہزادے ابو القاسم احمد کے ہاتھ پر بیعت کرکے اس کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کیا۔ اس طرح خلافت بغداد سے قاہرہ منتقل ہوگئی تاہم یہ صرف ظاہری حیثیت کی خلافت تھی، تمام اختیارات مملوک سلاطین کو حاصل تھے۔
عثمانیوں کے ہاتھوں مملوکوں کی شکست کے بعد عباسیوں کی اس ظاہری حیثیت کا بھی خاتمہ ہوگیا اور خلافت عباسیوں سے عثمانیوں میں منتقل ہوگئی۔ موجودہ عراق میں تکریت کے شمال مشرق میں رہنے والا العباسی قبیلہ اسی خاندان عباسیہ سے تعلق رکھتا ہے۔
فہرست |
[ترمیم] پس منظر
خاندان بنو امیہ کی حکومت کے دورِ زوال میں سلطنت میں ہر جگہ شورش اور بغاوتیں شروع ہوگئی تھی جن میں سب سے خطرناک تحریک بنی ہاشم کی تھی۔ بنی ہاشم چونکہ اس خاندان سے تھے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہوئے ہیں اس لیے وہ خود کو خلافت کا بنی امیہ سے زیادہ مستحق سمجھتے تھے۔
بنی ہاشم میں بھی دو گروہ پیدا ہوگئے تھے۔ ایک وہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد ان کی اولاد کو خلافت کا حقدار سمجھتا تھا۔ یہ گروہ شیعانِ علی کا طرفدار کہلاتا تھا۔ بعد میں اسی گروہ میں سے کچھ لوگوں نے شیعہ فرقے کی شکل اختیار کرلی اور وہ اثنا عشری کہلائے۔
دوسرا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا حضرت عباس کی اولاد کو خلافت دلانا چاہتا تھا۔ شروع میں دونوں گروہوں نے مل کر بنی امیہ کی حکومت کے خلاف بغاوتیں کیں لیکن بعد میں عباسی گروہ غالب آگیا۔
بنی عباس کی دعوت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں ہی شروع ہوگئی تھی۔ ہشام کے دور میں اس نے صنعت حاصل کرلی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد شیعان علی نے منصب امامت امام کے صاحبزادے حضرت زین العابدین کو پیش کیا لیکن جب انہوں نے قبول نہیں کیا تو شیعوں نے حضرت علی کے غیر فاطمی فرزند محمد بن حنفیہ کو امام بنا لیا اور اس طرح امامت کا منصب اہل بیت نبوی سے علوی شاخ میں منتقل ہوگیا۔ محمد بن حنفیہ کے بعد ان کے صاحبزادے ابو ہاشم عبداللہ جانشیں ہوئے اور ایران میں ان کی دعوت خفیہ انداز میں پھیلتی رہی۔ 100ھ میں ابو ہاشم نے شام میں وفات پائی۔ اس وقت ان کے خاندان میں سے کوئی شخص ان کے پاس نہیں تھا۔ مشہور صحافی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پوتے محمد بن علی قریب موجود تھے اس لیے ابو ہاشم نے ان کو جانشیں مقرر کرکے منصب امامت ان کے سپرد کردیا اور اس طرح امامت علویوں سے عباسیوں میں منتقل ہوگئی۔ بنی ہاشم کی یہ دعوت عمر بن عبدالعزیز سے ہشام تک خفیہ رہی اور عراق اور خراسان کے بڑے حصے میں پھیل گئی۔ 126ھ میں محمد بن علی کا انتقال ہوگیا اور ان کے بڑے بیٹے ابراہیم بن محمد ان کے جانشیں ہوئے۔ ان کا مرکز شام میں ایک مقام حمیمہ تھا۔ ان کے دور میں تحریک نے بہت زور پکڑ لیا اور مشہور ایرانی ابو مسلم خراسانی اسی زمانے میں عباسی تحریک کے حامی کی حیثیت سے داخل ہوا۔ اس نے ایک طرف عربوں کو آپس میں لڑایا اور دوسری طرف ایرانیوں کو عربوں کے خلاف ابھارا۔ اس جگہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ محمد بن علی نے ابو مسلم کو ہدایت کی تھی کہ خراسان میں کوئی عربی بولنے والا زندہ نہ چھوڑا جائے۔ مروان کے دور میں اس سازش کا انکشاف ہوگیا اور ابراہیم کو قتل کردیا گیا۔ اب ابراہیم کا بھائی ابو العباس عبداللہ بن علی جانشیں ہوا۔ اس نے بھی حکم دیا کہ خراسان میں کوئی عرب زندہ نہ چھوڑا جائے۔ اس نے ابراہیم کے غم میں سیاہ لباس اور سیاہ جھنڈا عباسیوں کا نشان قرار دیا۔
عربی اور ایرانی ہمیشہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے اور جب ایران پر عربوں کا قبضہ ہوا تو خلفائے راشدین نے منصفانہ حکومت قائم کرکے اس نفرت کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن بنی امیہ کے حکمران خلفائے راشدین کے اصولوں پر نہ چلے۔ ایرانیوں کو بھی حکومت سے شکایت بڑھتی چلی گئی۔ وہ اب مسلمان ہوگئے تھے اور بحیثیت مسلمان عربوں کے برابر حقوق چاہتے تھے۔ جب ان کے برابری کا سلوک نہیں کیا گیا تو وہ بنی امیہ کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی فکر کرنے لگ گئے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے انہوں نے بنی ہاشم کا ساتھ دیا۔
[ترمیم] حصولِ اقتدار
بنی امیہ کے زمانے میں عربوں اور ایرانیوں کے درمیان نفرتیں بڑھنے کے علاوہ خود عربوں کے اندر قبائلی عصبیت اور اختلافات بھی بہت بڑھ گئے تھے۔ یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ رنگ و نسل کے یہ اختلافات جن کو مٹانے کے لیے اسلام آیا تھا اتنی جلدی پھر سر اٹھانے لگے اور ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرے لگا۔ اس اختلاف کی وجہ سے عربوں کی قوت کمزور ہوگئی اور بنی امیہ کا سب سے بڑا سہارا چونکہ عرب تھے اس لیے ان کی قوت کمزور ہونے سے بنی امیہ کی سلطنت بھی کمزور پڑ گئی۔
اسلامی دنیا کی یہ حالت تھی کہ بنی ہاشم کے حامیوں نے ایرانیوں کی مدد سے خراسان میں بغاوت کردی۔ ہشام کے نا اہل جانشیں اس بغاوت کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اس جدوجہد میں ایک ایرانی سردار ابو مسلم خراسانی سے بنی ہاشم کو بڑی مدد ملی۔ وہ بڑا متصعب، ظالم اور سفاک ایرانی تھا لیکن زبردست تنظیمی صلاحیتوں کا مالک تھا۔ بنی ہاشم کے یہ حامی ماوراء النہر اور ایران پر قبضہ کرنے کے بعد عراق میں داخل ہوگئے جہاں بنی امیہ کے آخری حکمران مروان بن محمد نے دریائے زاب کے کنارے مقابلہ کیا لیکن ایسی شکست کھائی کہ راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ بعد میں مروان پکڑا گیا اور اس کو قتل کردیا گیا۔ دارالخلافہ دمشق پر بنی ہاشم کا قبضہ ہوگیا اور بنی ہاشم کی شاخ بنی عباس کی حکومت قائم ہوگئی۔
[ترمیم] مشہور خلفاء
خاندان عباسیہ نے 500 سال سے زائد عرصے تک حکومت کی جو ایک طویل دور ہے۔ اس طویل عہد میں عباسیوں کے کل 37 حکمران برسر اقتدار آئے اور ان میں سے کئی قابل و صلاحیتوں کے مالک تھے۔
[ترمیم] ابو العباس السفاح
عبداللہ بن محمد المعروف ابو العباس السفاح پہلا عباسی خلیفہ بنا۔ مورخین نے اس کی عقل، تدبر اور اخلاق کی تعریف کی ہے لیکن اس کے ظلم و ستم نے تمام خوبیوں پر پانی پھیر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ سفاح کے دست راست ابو مسلم خراسانی نے بنی امیہ کا اقتدار ختم کرنے کے لیے 6 لاکھ انسان ہلاک کیے۔ دمشق فتح کرکے عباسی افواج نے وہاں قتل عام کیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سمیت تمام اموی حکمرانوں کی قبریں تک کھود ڈالی گئیں۔ ہشام بن عبدالملک کی لاش قبر سے صحیح سلامت ملی تو اس کو کوڑوں سے پیٹا گیا اور کئی دن سر عام لٹکانے کے بعد نذر آتش کردیا گیا۔ بنی امیہ کا بچہ بچہ قتل کردیا گیا اور اموی سرداروں کی تڑپتی لاشوں پر فرش بچھا کر کھانا کھایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مورخین نے ابو العباس کو سفاح (یعنی خونریزی کرنے والا) کا لقب دیا ہے۔
[ترمیم] ابو جعفر المنصور
اگرچہ پہلا خلیفہ ابو العباس تھا لیکن عباسیوں کا پہلا نامور حکمران اس کا بھائی ابو جعفر المنصور تھا جو سفاح کے بعد تخت پر بیٹھا۔ اس نے 22 سال حکومت کی اور خلافت عباسیہ کی جڑوں کو مضبوط کیا۔ اس نے دریائے دجلہ کے کنارے ایک نیا شہر آباد کرکے دارالحکومت وہاں منتقل کیا جو بغداد کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نے ابو مسلم خراسانی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے اسے قتل کرادیا۔
[ترمیم] مہدی
منصور کے بعد اس کا بیٹا محمد مہدی مسندِ خلافت پر بیٹھا۔ وہ اپنی طبیعت اور مزاج میں باپ سے بہت مختلف تھا۔ نرم دل اور عیش پرست و رنگین مزاج تھا لیکن اس کے باوجود بد کردار نہیں تھا بلکہ ایک فرض شناس حکمران تھا۔ اس کا عہد امن و امان کا دور تھا۔
[ترمیم] ہارون الرشید
مہدی کے بعد اس کا لڑکا ہادی تخت خلافت پر بیٹھا لیکن سوا سال کی حکومت کے بعد اس کا انتقال ہوگیا اور اس کی جگہ اس کا بھائی ہارون تخت نشین ہوا۔ عباسی خلفاء میں سب سے زيادہ شہرت اسی ہارون الرشید نے حاصل کی۔ اس کے دور میں بغداد اپنے عروج پر پہنچ گیا اور یہ خوشحالی اور علم و فن کا زریں دور تھا۔ وہ متضاد اوصاف کا مالک تھا ایک طرف عیش پرستانہ زندگی کا حامل تھا تو دوسری طرف بڑا دیندار، پابند شریعت، علم دوست اور علماء نواز بھی تھا۔ ایک سال حج کرتا اور ایک سال جہاد میں گذارتا۔ اس کے دور میں امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام ابو یوسف کو قاضی القضاۃ مقرر کیا گیا۔ اس نے بیت الحکمت کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں کام کرنے والے عالموں اور مترجموں کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی تھیں۔ اس کا دور خاندان برامکہ کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے جنہوں نے اپنی عقل و فراست سے ہارون کی سلطنت کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی دی۔ ہارون کو خاص طور پر جعفر برمکی سے بڑی محبت تھی جو اس کا قابل وزیر تھا۔ لیکن ہارون سے کسی بات پر اس سے ناراض ہو کر اسے قتل کردیا۔ اس خاندان کے زوال کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہارون کو ان کے غیر معمولی اختیارات، اثرات اور مقبولیت کی وجہ سے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ خلافت پر قابض نہ ہو جائیں۔
[ترمیم] مامون الرشید
ہارون کے بعد اگر کسی اور عباسی خلیفہ کا عہد ہارون کے دور کا مقابلہ کرسکتا ہے تو وہ مامون الرشید کا دور ہے۔ وہ عادات و اطوار میں اپنے باپ کی طرح تھا بلکہ وہ ہارون سے بھی زیادہ نرم دل اور فیاض تھا۔ اس کے دور کا اہم واقعہ "فتنۂ خلق قرآن" ہے۔ مامون اس عقیدے کا قائل ہو گیا تھا کہ قرآن مخلوق ہے اور اس نظریے کو اس نے اسلام اور کفر کا پیمانہ سمجھ لیا اور علماء کو مجبور کیا کہ وہ اس نظریے کو تسلیم کریں یا پھر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
مامون کا تو جلد انتقال ہو گیا لیکن اس کے دو جانشینوں معتصم اور واثق کے زمانے میں خلق قرآن کے مسئلے کی وجہ سے علما خصوصاً امام احمد بن حنبل رحمت اللہ علیہ پر بہت سختیاں کی گئیں۔
معتصم اور متوکل عباسیوں کے عہد عروج کے آخری دو خلفاء تھے جن کے دور کی خاص بات سلطنت کی عسکری طاقت میں اضافہ تھا۔ تاہم متوکل کے بعد خلافت زوال کی جانب گامزن ہوگئی اور ان کی وسیع و عریض سلطنت کی حدود کم ہوتی چلی گئیں۔
[ترمیم] کارنامے
تمام عباسی دور کی عظمت و وقار مندرجہ بالا خلفاء کی مرہون منت تھی۔ اس کے علاوہ بھی دیگر حکمران خوبیوں کے مالک تھے جن کی وجہ سے عہد عباسیہ کو تاریخ کا ایک نہایت شاندار دور کہا گیا ہے۔ خصوصاً علمی ادبی اور تہذیب و ثقافت کے حوالے سے یہ دور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس سے قبل خلفائے راشدین اور بنو امیہ میں فتوحات اور انتظام سلطنت کی طرف زیادہ توجہ دی گئی جس سے ان سرگرمیوں کی جانب توجہ کم رہی۔
اس خاندان کے خلفاء کے اصلی کارنامے انتظام سلطنت اور خصوصی طور پر علمی و تمدنی ترقی کے میدان میں دکھائی دیتے ہیں۔ علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کی ترقی اس دور میں اتنے بڑے پیمانے پر ہوئی کہ اس کی دوسری مثال اندلس میں بنو امیہ کی حکومت کے علاوہ اور کہیں نظر نہیں آتی۔ ان میں دینی اور دنیاوی علوم نقلیہ اور علوم عقلیہ دونوں ہی شامل تھے۔
گوکہ اس خاندان کی حکومت کے دوران کئی انقلابات اور حوادث رونما ہوئے اور خلفاء کی قوت میں کمی بیشی ہوتی رہی۔ بعد کے خلفاء کا وقار مجروح ہوا لیکن بحیثیت مجموعی اس خاندان کی مرکزی حیثیت قائم رہی۔ اور اس دور میں جب عباسیوں کی حکومت کی حقیقی ساکھ ختم ہوگئی اور طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوا پھر بھی عالم اسلام کے کئی حکمران ان کے وفادار رہے۔ تاریخ کا یہ دور مذہبی، تمدنی اور سیاسی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔
[ترمیم] زوال کی وجوہات
بنو عباس کے زوال کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ ان کے حکمران نا اہل تھے بلکہ سب سے بڑی وجہ ترکوں کا عروج تھا جو معتصم کے زمانے سے اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کررہے تھے۔ اصل میں عباسیوں کو خلافت دلانے میں بڑا ہاتھ ایرانیوں کا تھا اور عباسیوں نے ذاتی مصلحت کے تحت ایرانیوں کے اثر و رسوخ کے کم کرنے کے لیے ترکوں کو آگے بڑھایا جو خود ان کے لیے نیک فال ثابت نہ ہوا۔
متوکل کے بعد ترک امراء کا اقتدار اور بڑھ گیا اب وہ خلیفہ کا حکم سننے سے بھی انکار کرنے لگے۔ انہوں نے کئی خلفاء کو اتارا اور بعض کو قتل بھی کیا۔ اس طرح ترکوں نے مرکزی حکومت کو کمزور تو کردیا لیکن خود کوئی مضبوط حکومت قائم نہ کرسکے۔ اور اس صورتحال میں کئی مقامی امراء نے اپنے اپنے علاقوں میں خود مختار حکومتیں قائم کرلیں۔ جن میں قابل ذکر بنی بویہ، سامانی اور فاطمی حکومتیں ہیں۔
زوال کے دور میں قرامطہ کا فتنہ بھی رونما ہوا جنہوں نے 50 سال تک جنوبی عراق اور شام میں ظلم و ستم اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا۔
دور زوال کے اچھے حکمرانوں میں قابل ذکر مہتدی تھا جس نے خلافت کو زيادہ سے زیادہ اسلامی رنگ دینے کی کوشش کی اور اسی کوشش کے نتیجے میں ترکوں اور اسلامی پابندیوں سے نالاں شاہی حکام اور امرا کی سازشوں کا نشانہ بن کر ترکوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ اس دور میں سب سے زیادہ خدمات انجام دینے کے حوالے سے قابل ذکر معتضد ہے جو معتمد کے بعد خلافت پر بیٹھا۔ اس نے ترکوں کا زور توڑا اور ایک وسیع علاقے پر دوبارہ امن و امان قائم کردیا اور حکومت کی گرتی ہوئی عمارت کو سہارا دیا۔ اس کے بعد اس کے تین بیٹے مکتفی، معتضد اور قاہر باللہ تخت نشین ہوئے۔ جن میں مکتفی اور معتضد اچھے حکمران تھے لیکن اس کا جانشیں مقتدر تن آسان، عیش پرست اور شراب و کباب کا رسیا تھا اور بالآخر معزول کرنے کے بعد قتل کردیا گیا۔
حمکرانوں کی عیش پرستی، نااہلی اور امراء کی خود سری و اخلاقی زوال کے نتیجے میں خلافت کی حدود پھر گھٹنا شروع ہوگئیں۔ اور بالآخر بنی بویہ کے ایک حکمران معز الدولہ نے بغداد پر قبضہ کرلیا۔ عباسی خاندان بویہی قبضے سے سلجوقیوں کے زیر اثر آگیا۔ یہ حالت دو سو سال تک رہی اس کے بعد عباسی خلفاء پھر آزاد ہوگئے لیکن ان کی حکومت عراق تک محدود رہی اور مزید سو سوا سو سال قائم رہنے کے بعد تاتاریوں کے ہاتھوں ختم ہوگئی۔
اس طرح عباسیوں کے 500 سالہ عہد کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
[ترمیم] دور اول
132ھ سے 247ھ تک یعنی ابو العباس السفاح سے متوکل تک، جس میں 10 حکمران برسراقتدار رہے۔ یہ حکمران غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ابو جعفر، مہدی، ہارون اور مامون جیسے عظیم و باصلاحیت حکمران اسی پہلے دور سے وابستہ تھے۔ اس دور میں تہذیب و ثقافت، علم و ادب اور صنعت و حرفت کی ترقی عروج پر رہی بلکہ اس کی ترقی دنیا کے لیے ایک مثال بن گئی۔ دوسرا پہلو اس دور میں عجمی عنصر کا عروج تھا۔ عربوں کے مقابلے میں عجمیوں نے اثر و رسوخ حاصل کیا۔ اس دور کے آخری خلفا نے عجمیوں کے بارے میں اپنی پالیسی بدل دی اور ترکوں کو عروج دیا۔ یہ پہلا دور ایک صدی تک رہا۔
[ترمیم] دور ثانی
یہ 247ھ سے شروع ہوکر 447ھ تک دو صدیوں کا دور ہے۔ خلیفہ منتصر سے لے کر قادر باللہ تک یہ عرصہ خلافت عباسیہ کے دوسرے دور میں شمار کیا جاتا ہے جو زوال کا دور ہے، خلافت کمزور پڑ گئی سلطنت کے اختیارات ترکوں اور پھر امیر الامراء کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ ہر کام حتیٰ کہ خلفا کی نامزدگی بھی انہی کی مرضی سے وتی بلکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خلفا کو تخت پر بٹھانے اور اتارنے بھی لگے۔ اس دور میں آل بویہ نے عروج حاصل کیا اور ترکوں کی جگہ لی۔ قادر باللہ کے عہد میں سلجوقیوں ے قدم بڑھائے اور بغداد میں آل بویہ کے اقتدار کا خاتمہ کردیا کئی دیگر خود مختار ریاستیں مثلاً سامانی اور صفاری قائم ہیں جنہوں نے سلطنت میں دراڑیں پیدا کرکے اسے کمزور کردیا۔
[ترمیم] دور ثالث
تیسرا دور 447ھ سے 656ھ یعنی قادر باللہ سے مستعصم (آخری حکمران) تک ہے جو سلجوقیوں کے غلبے کا دور ہے۔ خلیفہ کی تمام حیثیت ختم ہوگئی۔ یہ عہد بغداد کی مرکزیت اور سیاسی وحدت کے مکمل خاتمے کا بھی دور ہے۔ تمام اختیارات سلجوقیوں کے ہاتھوں میں تھے اور آخر کار 656ھ میں ہلاکو خان کے حملے سے عباسیوں کے آخری تاجدار مستعصم باللہ کے اقتدار کا خاتمہ کرکے عباسی خاندان کا چراغ بھی گل کردیا تھا۔
بحیثیت مجموعی ان تینوں ادوار میں سے ہر دور کی اپنی علیحدہ حیثیت ہے۔ آخری دور میں تمام تر کمزوریوں کے باوجود خلافت کا روحانی لبادہ اور خلیفہ کا مذہبی تقدس بہرحال برقرار رہا گوکہ سیاسی یکجہتی کا خاتمہ ہوگیا تھا لیکن مذہبی حیثیت موجود رہی۔ خود مختار ریاستوں کے قیام نے بغداد کی مرکزی حیثیت تو ختم کردی لیکن دنیائے اسلام کے کئی حکمران خلیفہ سے وفاداری کا دم بھرتے تھے۔
[ترمیم] عباسی خلفاء (بغداد)
- ابو العباس السفاح
- ابو جعفر المنصور
- محمد بن منصور المہدی
- موسیٰ بن مہدی الہادی
- ہارون الرشید
- محمد الامین
- مامون الرشید
- معتصم باللہ
- واثق باللہ
- متوکل علی اللہ
- منتصر باللہ
- مستعین باللہ
- معتز باللہ
- مہتدی باللہ
- معتمد علی اللہ
- معتضد باللہ
- مکتفی باللہ
- مقتدر باللہ
- قاہر باللہ
- راضی باللہ
- متقی لللہ
- مستکفی باللہ
- مطیع لللہ
- طائع لللہ
- قادر باللہ
- قائم بامر اللہ
- مقتدی بامر اللہ
- مستظہر باللہ
- مسترشد باللہ
- راشد باللہ
- مقتفی لامر اللہ
- مستنجد باللہ
- مستضی بامر اللہ
- الناصر الدین للہ
- ظاہر بامر اللہ
- مستنصر باللہ
- مستعصم باللہ
[ترمیم] قاہرہ کے عباسی خلفاء (مملوکوں کے زیر نگیں)
- ابو القاسم محمد مستنصر باللہ
- ابو العباس احمد حاکم بامر اللہ
- ابو الربیع سلیمان مستکفی باللہ
- ابو اسحاق ابراہیم واثق باللہ
- ابو العباس احمد حاکم بامر اللہ ثانی
- ابو بکر معتضد باللہ
- ابو عبداللہ محمد متوکل علی اللہ اول
- ابو حفص عمر واثق باللہ
- ذکریا مستعصم باللہ
- متوکل علی اللہ (دوسری مرتبہ)
- ابو الفضل عباس مستعین باللہ
- ابو الفتح داؤد معتضد باللہ
- ابو الربیع سلیمان مستعین باللہ
- ابو البقا حمزہ قائم بامر اللہ
- ابو المحاسن یوسف مستنجد باللہ ثانی
- عبدالعزیز متوکل علی اللہ
- یعقوب متمسک باللہ
- محمد متوکل علی اللہ ثالث