ترکی
وکیپیڈیا سے
|
|||||
شعار: Yurtta Sulh, Cihanda Sulh | |||||
ترانہ: İstiklâl Marşı | |||||
دارالحکومت | انقرہ |
||||
عظیم ترین شہر | استنبول | ||||
دفتری زبان(یں) | ترک | ||||
نظام حکومت
- - صدر
- وزیر اعظم |
جمہوریہ احمد نجدت سیزر رجب طیب اردوگان |
||||
آزاد جنگ آزادی کا آغاز یوم فتح جمہوریہ کا قیام |
19 مئی 1919ء 30 اگست 1922ء 29 اکتوبر 1923ء |
||||
رقبہ - کل - پانی (%) |
783,562 مربع کلومیٹر (37 واں) 302,534 مربع میل 1.3 |
||||
آبادی - تخمینۂ 2005ء - 2000ء مردم شماری - کثافت |
73,193,000 (116 واں) 67,844,903 93 فی مربع کلومیٹر(102 واں) 241 فی مربع میل |
||||
جی۔ ڈی۔ پی۔ (پی۔ پی۔ پی۔) - مجموعی - فی کس |
2006 تخمینہ 612.3 ارب ڈالر (17 واں) 8,385 ڈالر (75 واں) |
||||
ایچ۔ ڈی۔ آئی۔ (2003) | 0.750 (94 واں) – متوسط | ||||
سکہ | نیا ترک لیرا (TRY ) |
||||
منطقۂ وقت - گرما (ڈی۔ ایس۔ ٹی۔) |
ای ای ٹی (یو۔ ٹی۔ سی۔ +2:00) (یو۔ ٹی۔ سی۔ +3:00) |
||||
انٹرنیٹ ٹی۔ ایل۔ ڈی۔ | .tr | ||||
کالنگ کوڈ | +90 |
ترکی (سرکاری نام: Türkiye Cumhuriyeti یعنی ترکیہ جمہوریتی) جنوب مغربی ایشیا میں جزیرہ نما اناطولیہ اور جنوبی مشرقی یورپ کے علاقہ بلقان تک پھیلا ہوا ہے۔
ترکی کی سرحدیں 8 ممالک سے ملتی ہیں جن میں شمال مغرب میں بلغاریہ، مغرب میں یونان، شمال مشرق میں گرجستان (جارجیا)، مشرق میں آرمینیا، ایران اور آذربائیجان کا علاقہ نخچوان اور جنوب مشرق میں عراق اور شام شامل ہیں۔ علاوہ ازیں شمال میں ملکی سرحدیں بحیرہ اسود، مغرب میں بحیرہ ایجیئن اور بحیرہ مرمرہ اور جنوب میں بحیرہ روم سے ملتی ہیں۔
ترکی ایک جمہوری، سیکولر اور آئینی جمہوریہ ہے جس کا سیاسی نظام 1923ء میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مصطفی کمال اتاترک نے ترتیب دیا۔ یہ اقوام متحدہ، موتمر عالم اسلامی، او ای سی ڈی اور او ایس سی کا بانی رکن، 1949ء سے یورپی کونسل اور 1952ء سے نیٹو کا رکن ہے اور اس وقت یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کا امیدوار ہے۔
اپنے بہترین محل وقوع کے باعث سے ترکی زمانہ قدیم سے یورپ اورایشیا کے درمیان اہم ترین علاقہ رہا ہے۔
فہرست |
[ترمیم] جدید تاریخ
جمہوریہ ترکی مصطفی کمال اتاترک کی کوششوں سے 1923ء میں وجود میں آیا۔ وہ ترکی کو ایک ایسا جدید ملک بنانا چاہتے تھے جس میں حکومتی نظام دین کی بنیادوں پر استوار نہ کیا گیا ہو۔ وہ فوجی اور اقتصادی امور میں ترکی کو مغربی ممالک کے برابر دیکھنا چاہتے تھے۔ آج ترکی سوائے یورپی یونین کے یورپ کی ہر تنظیم کا رکن ہے۔ وہ 1952ء میں نیٹو کا اور 1949ء میں کونسل آف یورپ کا رکن بنا۔ اب وہ یورپی یونین کا رکن بننا چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے 1999ء سے کوشاں ہے۔
اتاترک (لغوی معنی: ترکوں کا باپ) ترکی کے پہلے صدر تھے۔ وہ 1938ء میں انتقال کرگئے۔ ترکی کی افواج خود کو اتاترک کے تصورات کا اصل محافظ قرار دیتی ہیں اور یساسی استحکام بحال کرنے کی خاطر تین مرتبہ 1960ء، 1971ء اور 1980ء میں ملک کے سیاسی نظام میں براہ راست مداخلت تک کرچکی ہیں۔
1970ء کے عشرے میں ملک میں امن و امان قائم رکھنے میں ناکام مخلوط حکومتوں سے بیزار ہوکر انہوں نے ستمبر 1980ء میں اقتدار سنبھال لیا۔ مارشل لائی ضوابط کے تحت کئی ہزار افراد پکڑ دھکڑ کی زد میں آئے۔ ان میں سے کئی ہزار کو تخریب کاری کا مجرم قرار دے کر قید و بند کی صعوبتوں جھیلنا پڑیں اور کئی کو سزائے موت بھی دی گئی۔
1982ء میں ترکی میں نیا آئین نافذ کیا گیا۔ 1989ء میں جنرل ایورن کی جگہ ترغت اوزال صدر بنے۔ صدر اوزال نے ترک معیشت کو جدید خطوط پر استوار کیا اور بین الاقوامی سطح پر ترکی کے رتبے کو کافی بلند کیا۔ وہ 1993ء میں فوت ہوگئے۔ مئی 1993ء میں وزیراعظم سلیمان ڈیمرل صدر منتخب ہوئے۔ جون 1993ء میں سابق وزیر معیشت تانسو چلر ڈیمرل کی جگہ راہ حق پارٹی کی سربراہ منتخب ہوگئیں اور یوں وہ ترکی کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔
جون 1996ء میں راہ حق پارٹی اور رفاہ پارٹی کے اتحاد سے بننے والی حکومت میں نجم الدین اربکان وزیراعظم بنے لیکن رفاہ پارٹی کے اسلام پسند نظریات کے بعد قومی سلامتی کونسل کے ساتھ ان کے تعلقات میں بدمزگیاں پیدا ہوگئیں۔ یہ اندیشے بھی سر اٹھانے لگے کہ کہیں نئی حکومت ترکی کے سیکولر نظام اور مغرب کی طرف التفات کی پالیسی کو تباہ ہی نہ کردے۔ آخر کار قومی سلامتی کونسل کے دباؤ میں آکر جون 1997ء میں اربکان کو مستعفی ہونا پڑا۔ اس کے باعث ہونے والی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا سب سے زیادہ فائدہ بلند ایجوت کی جمہوری بائیں پارٹی کو ہوا اور انہوں نے پہلے مادر وطن پارٹی اور آگے چل کے راہ حق پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومتی بنائی۔
18 اپریل 1999ء کو ہونے والے قومی اور بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں جمہوری بائیں پارٹی، مادر وطن پارٹی اور دیولت باہ چلی کی قوم پرست ایکشن پارٹی کے اتحاد نے حکومت بنائی جس میں بلند ایجوت ہی بدستور وزیراعظم رہے۔ ترکی کی آئینی عدالت (سپریم کورٹ) کے سابق سربراہ احمد نجدت سیزر کو 5 مئی 2000ء کو ترکی کا صدر منتخب کیا گیا۔ انہوں نے 16 مئی کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔
اس حکومت نے پہلے ہی برس آئینی و اقتصادی اصطلاحات کا ایک پروگرام بنایا۔ اس میں وہ نکات بالخصوص شامل تھے جن کے باعث یورپی یونین میں ترکی کی رکنیت کے امکانات بہتر ہوجاتے لیکن ان اصطلاحات کو عملی شکل دینے کے بارے میں حکومت کی صلاحیت سے متعلق شکوک کے ساتھ ساتھ ایک اقتصادی اسکینڈل کے باعث فروری 2001ء میں ترکی ایک اقتصادی بحران میں پھنس گیا۔ جیسے جیسے یہ بحران سخت ہوتا گیا، کھلے بازار میں ترک لیرا کی فروخت بڑھ گئی۔ جس کے باعث حکومت کو لیرا کی قیمت میں 40 فیصد تک کمی کرنا پڑی ساتھ ہی سود کی شرح اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور روزگار کے مواقع بھی کم ہونے لگے۔ اس بحران کا اثر جن دیگر معاملات پر پڑا ان میں اقتصادی استحکام کے لئے بلند ایجوت حکومت کے بے نظیر اقدامات اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے 11 ارب ڈالر کے قرض کی مدد سے چلنے والا مہنگائی توڑ پروگرام سرفہرست تھے۔
ان حالات سے نمٹنے کے لئے وزیراعظم نے عالمی بینک کے ایک سابق نائب صدر کمال درویش کو مارچ 2001ء میں وزیر اقتصادیات مقرر کیا۔ متعدد اقتصادی و عملی اصطلاحات اور نچلی سطح پر اقتصادی استحکام اور بجٹ سازی میں حکومت کو سہارا دینے کے لئے انہوں نے مئی 2001ء تک مجموعی طور پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 10 ارب ڈالرز کے قرضوں کا انتظام کیا۔ فروری 2002ء میں عالمی مالیاتی فنڈ نے 9 ارب ڈالرز کے مزید قرضے منظور کردیئے اور اس شرط پر سال بھر کے دوران چند قسطوں پر مشتمل مزید 5 ارب ڈالرز کا وعدہ بھی کیا کہ ترکی اپنی اقتصادی اصطلاحات ان کے مشوروں کی روشنی میں مرتب کرے گا۔
تاہم حکومتی اتحاد میں کشیدگی چلتی رہی۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط (بالخصوص سرکاری اداروں کی نجکاری) اور سیاسی اصطلاحات کی سست روی تنازعات کی بڑی وجوہ تھیں۔ مئی 2002ء میں خرابی صحت کے آثار سامنے آنا شروع ہونے کے باوجود بلند ایجوت کے مستعفی نہ ہونے کے باعث وزیراعظم کی اپنی جمہوری بائیں پارٹی کے 60 ارکان اسمبلی، نائب وزیراعظم اور وزیر خزانہ سمیت کئی وزراء نے بھی استعفے دے دیئے۔
ان استعفوں کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی دونوں جماعتوں اور حکومتی اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کی طرف سے دباؤ کے نتیجے میں ترک پارلیمنٹ کو مقررہ وقت سے 18 ماہ قبل 3 نومبر 2002ء کو نئے انتخابات کرانے کا فیصلہ کرنا پڑا تاہم اپنے آخری دنوں میں اس پارلیمنٹ نے اہم سیاسی اصطلاحات پر مشتمل ایک پروگرام کی منظوری دے دی تھی۔
[ترمیم] حالیہ سیاسی واقعات
نومبر 2002ء کے انتخابات میں صرف قدامت پسند انصاف و ترقی پارٹی اور بائیں بازو کی جمہوری عوامی پارٹی ہی وہ دو جماعتیں تھیں جنہوں نے پارلیمنٹ میں نمائندے بھیجنے کے لئے کم از کم 10 فیصد ووٹ جیتنے کی شرط پوری کی۔ ان میں اول الذکر نے 34 اور دوسری نے 19 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے تاہم بعد میں ان دونوں پارٹیوں کے بعض ارکان کی طرف سے اپنی اپنی پارٹیوں سے علیحدگی کے باعث تین مزید پارٹیوں کو پارلیمنٹ کی رکنیت مل گئی۔
2002ء کے انتخابات کے موقع پر انصاف و ترقی پارٹی کے چیئرمین رجب طیب اردوگان کو 1998ء میں اپنی کسی تقریر میں کہی گئی کسی بات پر سزا پانے کے باعث انتخابات و وزارت عظمی کے لئے نااہل تھے نتیجتا ان کی جگہ ان کے نائب عبداللہ گل وزیراعظم بنائے گئے تاہم بعد میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اس پابندی اور اس کی وجہ سے ہونے والی سزا کو ختم کردیا گیا۔ 9 مارچ کو ایک ضمنی انتخاب کے ذریعے اردوگان پارلیمنٹ کے رکن منتخبح ہوئے اور ان کو حکومت میں لانے کی خاطر عبداللہ گل وزارت عظمی سے دستبردار ہوگئے۔ انہیں بعد ازاں وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔
ابھی انصاف و ترقی پارٹی نے پوری طرح حکومت ہی نہ سنبھالی تھی کہ جنگ عراق شروع ہوگئی۔ پارلیمنٹ نے امریکہ کے اتحادی ممالک کی افواج کے دستوں کو ترکی سے گذرنے کی اجازت نہیں دی تھی البتہ اپنے دستے ترکی بھیجنے کی منظوری دے دی لیکن امریکہ اور ترکی بعد میں اس بات پر متفق ہوگئے کہ ترکی کی اس پیشکش سے فائدہ نہیں اٹھایا جائے گا۔
اس وقت انصاف و ترقی پارٹی کے سیاسی ایجنڈے پر عراق، یورپی یونین کی رکنیت، قبرص اور معیشت زیادہ نمایاں نکات ہیں۔ نومبر 2003ء میں حکومت کو دہشت گردی کے 4 بڑے واقعات سے نمٹنا پڑا ان میں یہودیوں کی دو عبادت گاہوں، برطانوی قونصل جنرل اور ایک غیر ملکی بینک کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ تمام واقعات استنبول میں پیش آئے۔
مارچ 2004ء میں برسر اقتدار انصاف و ترقی پارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں 42 فیصد ووٹ حاصل کرکے اپنی پوزیشن مستحکم کرلی۔ پارلیمنٹ کے اگلے انتخابات نومبر 2007ء میں ہوں گے۔
[ترمیم] بین الاقوامی تعلقات
قبرص: قبرص کے سیاسی حالات کے باعث 1950ء کے عشرے کے وسط سے ترکی اور یونان کے تعلقات میں کشیدگی چلی آرہی ہے۔ 1960ء میں قبرص کی آزادی کے بعد یہ کشیدگی اتنی بڑھ گئی کہ دسمبر 1963ء میں وہاں نوعیت کے عیسائی مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ یہ فسادات 1974ء تک جاری رہے۔ ترک قبرصیوں کی اقلیت 1964ء میں اقوام متحدہ کی حفاظت میں اپنی پناہ گاہوں میں چھپنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ یونان میں اقتدار پر قابض فوج کی پشت پناہی کے ساتھ انتہا پسندوں کے ہاتھوں جولائی 1974ء میں قبرص کے منتخب صدر کا تختہ الٹے جانے کے بعد ترک افواج شمالی قبرص پہنچ گئیں۔ اس کے بعد پورا جزیرہ عملا کسی ایک حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ جزیرے کے تقریبا 36 فیصد علاقے پر حکومت جمہوریہ قبرص کاراج نہیں۔ جزیرہ کے شمال میں ترک افواج کے دستے بھی بڑی تعداد میں تعینات ہیں۔
منصفانہ، دیرپا اور ہمہ گیر سمجھوتے کی تلاش میں 1974ء کے بعد سے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی مذاکرات کی کئی کوششیں کی جاچکی ہیں تاہم یہ مقصد تاحال حاصل نہیں کیا جاسکا۔ مسئلہ قبرص کے حل کی تلاش میں اقوام متحدہ کی نگرانی کی آخری کوشش 24 اپریل 2004ء کو ختم ہوگئی۔ یہ کوشش اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے تجويز کئے جانے والے ایک ہمہ گیر یر منصوبہ پر ریفرنڈم کی شکل میں تھی۔ اس پر جزیرے کے دونوں حصوں میں بیک وقت ریفرنڈم کروایا گیا تھا۔ یونانی قبرصیوں نے اس منصوبے کے خلاف اور ترک قبرصیوں نے اس کے حق میں ووٹ دیئے۔ نتیجتا یکم مئی کو یورپی یونین نے قبرص کو منقسم حالت میں ہی اپنا رکن بنالیا۔ جزیرے کا شمالی حصہ یورپی یونین کا رکن نہیں جسے ترک قبرص کہا جاتا ہے۔
[ترمیم] یونان سے تعلقات
طویل جدوجہد کے بعد 1830ء میں سلطنت عثمانیہ سے آزاد ہونے والے یونان اور عثمانی حکومتوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ مشکلات سے دوچار رہے لیکن 1950ء کے عشرے کے وسط میں قبرص کے مستقبل کے سوال پر بین الاقوامی تنازعہ کھڑے ہونے تک یونان اور جمہوریہ ترکی کے تعلقات ہمیشہ دوستانہ رہے۔ قبرص کے سوال پر جاری اختلاف کے علاوہ بھی ترکی اور یونان کے تعلقات بحیرہ ایجیئن کی خود مختاری کے حوالے سے بھی کئی امور پر الجھے رہے۔
لیکن 1999ء میں ترکی اور یونان میں آنے والے زلزلے نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے میں مدد فراہم کی۔ یونان اور ترکی کے تعلقات میں بہتری دسمبر 1999ء میں ہیلسنکی میں ہونے والے یورپی کونسل کے اجلاس میں یورپی یونین کی رکنیت کے بارے میں ترکی کی درخواست پر ہمدردانہ غور کے لئے آمادہ کرنے کی ایک بڑی وجہ تھی۔ اس سے ترکی کے یورپی یونین اور یونان کے ساتھ تعلقات کی ایک نئی بنیاد فراہم ہوگئی۔ یورپی یونین کی رکنیت کے سوال پر یونان اب ترکی کی حمایت کررہا ہے۔
[ترمیم] یورپ کے ساتھ تعلقات
ترکی دوسرا ملک ہے جس نے 1963ء میں یورپی تنظیم بنانے سے متعلق معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اس کی بنیاد پر یورپی کونسل اور ترکی کی کسٹم یونین بنی۔ پھر دونوں کے درمیان کسٹم قوانین اور ضوابط سے متعلق ایک معاہدہ ہوا جو بالآخر یکم جنوری 1996ء کو نافذ کردیا گیا۔ اس معاہدے میں بھی آخر کار ترکی کے یورپی کونسل کا رکن بننے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ اس کے لئے ترکی نے 1987ء میں رسمی درخواست دی۔ 1989ء میں یورپی کمیشن نے یہ درخواست نہ ماننے کا فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ترکی میں ابھی مزید سیاسی اور اقتصادی اصطلاحات کی ضرورت ہے۔ تاہم یورپی کونسل نے 1999ء کے ہیلسنکی اجلاس میں بالآخر ترکی کو رکنیت کا امیدوار تسلیم کرلیا۔ اس پر 2002ء میں یورپی کونسل کے کوپن ہیگن اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر یورپی کمیشن کی سفارش اور رپورٹ نے اس بات کی تصدیق کردی کہ ترکی دسمبر 2004ء کے اجلاس تک کوپن ہیگن اجلاس سے سامنے آنے والے سیاسی پیمانوں پر پورا اترتا ہے تو رکنیت کے بارے میں اس سے مذاکرات بلاتاخیر شروع کردیئے جائیں گے۔
کوپن ہیگن سیاسی پیمانوں پر ترکی کے پورا اترنے سے متعلق یورپی کمیشن کی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے دسمبر 2004ء میں ہونے والے اجلاس میں یورپی کونسل نے ترکی کی رکنیت سے متعلق 3 اکتوبر 2005ء کو مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ مذاکرات3 اکتوبر کو شروع ہوئے۔ 12 دسمبر 2005ء کو ترکی کو یورپی یونین کا رکن بنانے کا فیصلہ ہوا اور 23 دسمبر کر یہ فیصلہ نافذ کردیا گیا۔ یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت سے متعلق یورپی کونسل میں پیش کرنے کے لئے یورپی کمیشن ہر سال ایک تحریری رپورٹ پیش کرے گا۔ کمیشن کی 2005ء رپورٹ کے مطابق ترکی کافی حد تک کوپن ہیگن پیمانوں پر پورا اتر رہا ہے۔
[ترمیم] Dictionary
- Multi Language Turkish DictionaryEnglish German Russian French Spanish Italian Japanese Korean Arabic Chinese
یہ ابھی نامکمل مضمون ہے۔آپ اس میں ترمیم کرکے مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔ [زمرہ: ممالک]]