مراکش
وکیپیڈیا سے
|
|||||
شعار: اللہ، الوطن، الملك | |||||
ترانہ: Hymne Chérifien | |||||
دارالحکومت | رباط |
||||
عظیم ترین شہر | کاسابلانکا | ||||
دفتری زبان(یں) | عربی، (فرانسیسی، امازغ اور مراکشی عربی بھی کثیر پیمانے پر بولی جاتی ہے | ||||
نظام حکومت
بادشاہ
وزیر اعظم |
آئینی بادشاہت محمد ششم ادريس جطو |
||||
آزاد - اعلان آزادی: فرانس سے - اسپین سے |
2 مارچ 1956 7 اپریل 1956 |
||||
رقبہ - کل - پانی (%) |
446,550 مربع کلومیٹر (57 واں) 172,414 مربع میل برائے نام |
||||
آبادی - تخمینۂ 2005 - کثافت |
33,241,259 (37 واں) 70 فی مربع کلومیٹر(122 واں) 181 فی مربع میل |
||||
جی۔ ڈی۔ پی۔ (پی۔ پی۔ پی۔) - مجموعی - فی کس |
2005 تخمینہ 135.74 ارب ڈالر (54 واں) 4,503 ڈالر (109 واں) |
||||
ایچ۔ ڈی۔ آئی۔ (2003) | 0.631 (124 واں) – متوسط | ||||
سکہ | مراکشی درہم (MAD ) |
||||
منطقۂ وقت - گرما (ڈی۔ ایس۔ ٹی۔) |
مراکش کا معیاری وقت (یو۔ ٹی۔ سی۔ +0:00) غیر مستعمل (یو۔ ٹی۔ سی۔ +0:00) |
||||
انٹرنیٹ ٹی۔ ایل۔ ڈی۔ | .ma | ||||
کالنگ کوڈ | +212 |
سلطنت مراکش (عربی: المملكة المغربية ) شمالی افریقہ کا ایک ملک ہے ۔ بحر اوقیانوس کے ساتھ طویل ساحلی پٹی پر واقع اس ملک کی سرحد آبنائے جبرالٹر پر جاکر بحیرہ روم میں جاملتی ہیں۔ مشرق میں مراکش کی سرحد الجزائر، شمال میں بحیرہ روم اور اسپین سے منسلک آبی سرحد اور مغرب میں بحر اوقیانوس موجود ہے۔ جنوب میں اس کی سرحدیں متنازعہ ہیں۔ مراکش مغربی صحارا پر ملکیت کا دعویدار ہے اور 1975ء سے اس کے بیشتر رقبے کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔
مراکش افریقہ کا واحد ملک ہے جو افریقی یونین کا رکن نہیں البتہ وہ عرب لیگ، عرب مغرب یونین، موتمر عالم اسلامی، میڈيٹیریئن ڈائیلاگ گروپ اور گروپ آف 77 کا رکن ہے اور امریکہ کا ایک اہم غیر نیٹو اتحادی ہے۔
فہرست |
[ترمیم] نام
ملک کا مکمل عربی نام "المملكة المغربي" ہے جس کا مطلب مغربی سلطنت ہے۔ تاریخی طور پر مورخین مراکش کو المغرب الاقصی کہتے تھے جس کی بنیاد پر اسے مغرب کہا جانے لگا۔ اردو سمیت کئی زبانوں میں اسے مراکش کہا جاتا ہے جو اس کے سابق دارالحکومت کا نام ہے۔
[ترمیم] تاریخ
جدید مراکش کا علاقہ 8 ہزار سال قبل مسیح میں آباد ہوا۔ قدیم دور میں یہ ماریطانیہ کہلا تا تھا۔ واضح رہے کہ ماریطانیہ نام کا ملک بھی مراکش کے قریب ہی واقع ہے۔ شمالی افریقہ اور مراکش عظیم رومی سلطنت کا حصہ رہے ہیں اور رومی سلطنت میں مراکش کا علاقہ Mauretania Tingitana کہلاتا تھا ۔ 5 ویں صدی میں رومی سلطنت کے زوال کے بعد وینڈلز، وزیگوتھ اور بازنطینی یونانیوں نے اس سرزمین پر قبضہ کیا۔ اس دور میں بھی جدید مراکش کے پہاڑی علاقے آزاد رہے جن میں بربر نسل کے لوگ رہتے تھے۔
ظہور اسلام کے بعد 7 ویں صدی میں عرب افواج شمالی افریقہ کو فتح کرتے ہوئے مراکش پہنچیں۔ 670ء میں خلافت امویہ کا جرنیل عقبہ بن نافع شمالی افریقہ کی ساحلی پٹی میں فتوحات حاصل کرتے کرتے مراکش پہنچا اور 683ء تک جدید مراکش کا تقریبا تمام علاقہ فتح کرلیا۔
اس فتح کے بعد مراکش میں اسلامی ثقافت اپنے عروج پر پہنچی اور مقامی بربر آبادی کی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا۔
بنو امیہ کے زوال کے بعد خلافت عباسیہ کا دور آیا جس میں مراکش مرکزی حکومت کی دسترس سے نکل گیا اور ادریس بن عبداللہ نے ادریسی سلطنت قائم کردی۔ ادریسیوں نے فاس کو اپنا دارالحکومت قرار دیا اور مراکش کو تعلیم و ہنر کا مرکز بنادیا۔
مراکش بربروں کی دو بادشاہتوں کے درمیان اپنے عروج پر پہنچ گیا جو ادریسیوں کے بعد قائم ہوئیں۔ پہلے مرابطین اور بعد ازاں موحدین کے دور میں مراکش تمام شمال مغربی افریقہ اور اندلس کے بیشتر حصے کا حکمران بن گیا۔ اسلامی اسپین میں اشبیلیہ اور غرناطہ جیسے شہر یورپ میں علم و ہنر، سائنس، ریاضی، علم فلکیات، جغرافیہ اور طب کے مراکز تھے۔
شاہ فرڈيننڈ اور ملکہ آئزابیلا کے ہاتھوں سقوط غرناطہ کے بعد اسپین میں مسلم اقتدار کا سورج غروب ہوگیا اور عیسائیوں نے مسلمانوں اور یہودیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑدیئے۔ عیسائیوں کے مظالم سے تنگ آکر اسپین کے مسلمان اور یہودی مراکش آگئے۔ عیسائیوں نے مسلم ثقافت کی ہر نشانی کو ختم کرنے کے لئے اندلس کا ہر کتب خانہ تباہ کردیا جس کے باعث ہزاروں انمول کتابیں ضائع ہوگئیں۔
[ترمیم] مراکش 1666ء تا 1912ء
بعد ازاں سلطنت علویہ نے عروج حاصل کیا جسے اسپین اور مسلسل مغرب کی جانب توسیع پانے والی سلطنت عثمانیہ کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا ۔ علوی اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے حالانکہ ان کی حکومت گذشتہ حکومتوں کے مقابلے میں چھوٹی لیکن کافی دولت مند تھی۔ 1684ء میں انہوں نے طنجہ پر بھی قبضہ کرلیا۔
مراکش پہلا ملک ہے جس نے 1777ء میں امریکہ کو بطور آزاد ملک تسلیم کیا۔ امریکی انقلاب کے آغاز میں بحر اوقیانوس میں سفر کرنے والے امریکی جہازوں پر بربر قزاق حملے کیا کرتے تھے۔ اس وقت امریکیوں نے یورپی قوتوں سے مدد کی درخواست کی لیکن اس کی شنوائی نہیں ہوئی۔ 20 دسمبر 1777ء کو مراکش کے سلطان نے اعلان کیا کہ امریکی تاجروں کے جہاز سلطنت کی حفاظت و امان میں ہوں گے۔
امریکہ۔ مراکش دوستی کا یہ معاہدہ امریکہ کا قدیم ترین دوستی کا معاہدہ ہے جو آج تک برقرار ہے۔ اس معاہدے پر جون ایڈمز اور تھامس جیفرسن نے دستخط کئے تھے اور یہ 1786ء سے نافذ ہے۔ صدر جارج واشنگٹن نے سلطان سیدی محمد کو خط لکھا جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مستحکم ہوئے۔ طنجہ میں امریکی قونصلیٹ ملک سے امریکی حکومت کی پہلی ملکیت تھی۔ اس عمارت میں اب طنجہ امریکن لیگیشن میوزیم قائم ہے۔
[ترمیم] یورپی اثرات
مراکش اس وقت افریقہ میں سب سے دولت مند ملک تھا اور وہ بحیرہ روم میں داخلے کے راستے پر قائم ہونے اور اپنے بہترین محل وقوع کے باعث یورپی استعماری قوتوں کی نظر میں آگیا۔ فرانس نے 1830ء میں مراکش میں زبردست دلچسپی دکھائی۔ 1904ء میں مراکش میں فرانس کے حلقہ اثر کی برطانوی قبولیت نے جرمنی میں زبردست ردعمل پیدا کیا اور جون 1905ء کے اس بحران کو 1906ء میں اسپین میں الجزیراس کانفرنس کے ذریعے حل کیا گیا جس کے ذریعے مراکش میں فرانس کی "خصوصی حیثیت" اور فرانس اور اسپین کے مشترکہ قبضے کو تسلیم کیا گیا۔ یورپی قوتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ساتھ مراکش کا دوسرا بحران برلن نے پیدا کیا اور 30 مارچ 1912ء کو معاہدہ فاس کے تحت مراکش کو فرانس کی کالونی بنادیا گیا۔ معاہدے کے تحت اسی سال 27 نومبر کو اسپین کو شمالی و جنوبی علاقوں کا قبضہ دیا گیا۔
[ترمیم] مزاحمت
دوسری جنگ عظیم کے بعد طے پانے والے میثاق اوقیانوس کے تحت مراکش کی کئی قومی سیاسی جماعتوں نے ملک کی آزادی کا مطالبہ کیا اور استقلال پارٹی نے پہلی مرتبہ 1944ء میں عوامی سطح پر آزادی کی آواز اٹھائی۔
1953ء میں سلطان محمد پنجم کی مڈغاسکر جلاوطنی اور ان کی جگہ غیر مقبول محمد بن عارفہ کی تقرری نے ملک بھر میں فرانس کے خلاف زبردست ردعمل پیدا کیا۔ اس دوران سب سے مشہور واقعہ اوجدا میں مراکشی باشندوں کو فرانس اور دیگر یورپی باشندوں کی رہائش گاہوں پر حملہ تھا۔ فرانسی قبضے کے خلاف یکم اکتوبر 1955ء کو "آرمی ڈی لبریشن" قائم کی گئی جس کا قیام "کمیٹی ڈی لبریشن ڈو مغرب عرب" نے قاہرہ، مصر میں کیا۔ اس کا ہدف سلطان محمد پنجم کی وطن واپسی اور الجزائر اور تیونس کی آزادی تھا۔ فرانس نے 1955ء میں محمد پنجم کو وطن واپسی کی اجازت دی اور مذاکرات کا آغاز ہوا جو بالآخر اگلے برس مراکش کی آزادی پر متنج ہوئے۔
یہ "انقلاب شاہ و عوام" کہلاتا ہے جسے ہر سال 20 اگست کو منایا جاتا ہے۔
[ترمیم] آزادی
مراکش نے 2 مارچ 1956ء کو سیاسی طور پر آزادی حاصل کی اور 7 اپریل کو فرانس نے مراکش پر اپنے قبضے کا باقاعدہ اعلان کردیا۔ 1956ء اور 1958ء میں فرانس سے معاہدات کے تحت ہسپانوی قبضے کے تحت علاقوں پر مراکش کا قبضہ ہوا لیکن دیگر ہسپانوی قبضہ جات کو طاقت کے بل بوتے پر حاصل کرنے کی کوشش ناکام رہی۔ طنجہ کا بین الاقوامی شہر 29 اکتوبر 1956ء کو معاہدہ طنجہ پر دستخط کے ساتھ ایک بار پر حاصل کرلیا۔ ان کا دور سیاسی عدم استحکام کا دور سمجھا جاتا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں مراکش نے مغربی صحارا پر فوج کشی کی اور اس خطے کا معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔
مراکش جون 2004ء میں امریکہ کا نان نیٹو اتحادی قرار پایا اور اس نے امریکہ و یورپی یونین کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے کئے۔
2003ء میں مراکش کا سب سے بڑا شہر کاسابلانکا دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا۔ ان حملوں کا نشانہ مغربی اور یہودی باشندے تھے جس میں 33 شہری ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے جن کی اکثریت مراکشی تھی۔
2006ء میں مراکش نے آزادی کی 50 ویں سالگرہ منائی۔
[ترمیم] جغرافیہ
ایک لاکھ 75 ہزار 402 مربع میل (4 لاکھ 46 ہزار 550 مربع کلومیٹر) کے رقبے پر پھیلا مراکش رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 57 واں سب سے بڑا ملک ہے۔
مشرق اور جنوب مشرق میں اس کی سرحد الجزائر سے ملتی ہے۔ بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ ساتھ چند شہروں پر اب تک ہسپانوی قبضہ برقرار ہے۔ مراکش کے شمال میں آبنائے جبرالٹر ہے۔ بحیرہ روم کے ساتھ ساتھ ساحلی علاقوں پر کوہ ریف کا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ معروف کوہ اطلس کا سلسلہ جنوب مغرب سے شمال مشرق کی جانب ہے۔ ملک کے جنوب مشرق کا بیشتر علاقہ صحرائے اعظم میں شامل ہے جہاں آبادی بہت کم ہے۔ آبادی کی اکثریت ان دونوں پہاڑی سلسلوں کے شمال میں رہائش پذیر ہے۔ جنوب میں سابق ہسپانوی کالونی مغربی صحارا واقع ہے جس پر 1975ء میں مراکش نے قبضہ کرلیا تھا اور اسے اپنا جنوبی صوبہ قرار دیتا ہے۔
مراکش کا دارالحکومت رباط ہے اور اس کا سب سے بڑا شہر اور بڑی بندرگاہ کاسابلانکا ہے۔
دیگر بڑے شہروں میں اگادیر، فاس، مراکیش، محمدیہ، طنجہ و دیگر شہر شامل ہیں۔
[ترمیم] علاقائی تقسیم
1997ء میں منظور شدہ قانون کے مطابق مراکش کو 16 نۓ علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر علاقہ کو مزید چھوٹے انتظامی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کو صوبہ کہتے ہیں۔ مراکش میں صوبوں کی کل تعداد 61 ہے۔ علاقہ کا سربرہ والی (گورنر) کہلاتا ہے جسکو بادشاہ وقت نامزد کرتا ہے۔ اور والی اس صوبہ کا سربراہ بھی ہوتا ہے جس میں وہ رہتا ہے۔
مراکش کے علاقے اور انکے صوبے درج ذیل ہیں۔
نمبر شمار | علاقہ | علاقہ کا صدر مقام | علاقہ میں شامل صوبے | دیگر اہم شہر |
1 | الشاويہ ورديغہ | سطات | بن سليمان ۔ خريبكہ | |
2 | دكالہ عبدہ | آسفي | الجديدہ | |
3 | فاس بولمان | فاس | بولمان ۔ مولاۓ یعقوب ۔ سیفراو | |
4 | الغرب شراردہ بني حسين | القنيطرہ | سيدي قاسم | |
5 | عظیم کاسابلانکا (عربی میں ۔ جهہ الدار البيضاء الكبرى) | کاسابلانکا | عین شوک آۓ حسنی ۔ عین صباۓ محمدی ۔ بن مسک سیدی عثمان ۔ کاسابلانکا انفا ۔ انفدا درب سلطان ۔ مشاور کاسابلانکا ۔ سیدی برنوسی زیناتا ۔ محمدیہ ۔ میدیونہ ۔ نوآشور | |
6 | كلميم السمارہ | كلميم | عصا زاگ ۔ سمارا ۔ طانطان ۔ طاطہ | |
7 | العيون بوجدور الساقيہ الحمراء | العيون | بوجدور | |
8 | مراكش تانسيفت حاوز | مراکیش | مراکیش مدینہ ۔ مراکیش منارہ ۔ سیدی یوسف بن علی ۔ العاوز ۔ کیکاؤا ۔ الکیلات اسراغنا ۔ الصويرہ | |
9 | مكناس تافيلالت | مکناس | الاسماعیلیہ ۔ مکناس المنزہ ۔ الحجاب ۔ الراشيديہ ۔ افران ۔ خنيفرہ | |
10 | الجهہ الشرقيہ | وجدة | بركان ۔ فگواگ ۔ جرادہ ۔ الناظور ۔ وجدہ انغد ۔ توریرت | |
11 | وادي الذهب لكويرہ | الداخلہ | آوسرد ۔ اودادھاب | |
12 | الرباط سلا زمور زعير | رباط | صاليہ ۔ سکرت تمارہ ۔ الخميسات | |
13 | سوس ماسة درعہ | اگادیر | اگادیر ادآو طنانے ۔ انزیغانے آیت میلاول ۔ شتوکہ آیت باہہ ۔ ورزازات ۔ ترودانت ۔ تزنيت ۔ زكورہ | |
14 | تادلہ ازيلال | بني ملال | ازلال | |
15 | طنجہ تطوان | تطوان | فہس انجرا ۔ تنجیر اسیلہ ۔ شفشاون ۔ العرائش | |
16 | تازہ الحسيمہ تاونات | الحسيمہ | تاونات ۔ تازہ |
[ترمیم] بین الاقوامی تعلقات
تنظیم | تاریخ شمولیت | |
---|---|---|
اقوام متحدہ | 12 نومبر 1956ء سے | |
عرب لیگ | یکم اکتوبر 1958ء سے | |
انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی | 1959 سے | |
آرگنائزیشن آف افریقن یونٹی | تاسیسی رکن 25 مئی 1963ء، دستبرداری 12 نومبر 1984ء | |
گروپ آف 77 | 15 جون 1964ء سے | |
موتمر عالم اسلامی | 22 ستمبر 1969ء | |
عرب مغرب یونین | 17 فروری 1989ء | |
عالمی تجارتی تنظیم | یکم جنوری 1995ء سے | |
میڈیٹیرینیئن ڈائیلاگ گروپ | فروری 1995ء سے | |
غیر نیٹو اتحادی | 19 جنوری 2004ء سے |
عرب لیگ (جامعة الدول العربية) | ||
اردن | متحدہ عرب امارات | بحرین | تیونس | الجزائر | جزائر قمر | جبوتی | سعودی عرب | سوڈان | شام | صومالیہ | عراق | اومان | فلسطین | قطر | کویت | لبنان | لیبیا | مصر | مراکش | ماریطانیا | یمن |
موتمر عالم اسلامی | |
افغانستان | الجزائر | البانیا | آذربائیجان | بحرین | بنگلہ دیش | بینن | برکینا فاسو | برونائی | کیمرون | چاڈ | جزائر قمر | آئیوری کوسٹ | جبوتی | مصر | گیبون | گیمبیا | گنی | گنی بساؤ | گیانا | انڈونیشیا | ایران | عراق | اردن | کویت | قازقستان | کرغزستان | لبنان | لیبیا | مالدیپ | ملائیشیا | مالی | ماریطانیا | مراکش | موزمبیق | نائجر | نائجیریا | اومان | پاکستان | فلسطین | قطر | سعودی عرب | سینیگال | سیرالیون | صومالیہ | سوڈان | سورینام | شام | تاجکستان | ترکی | تیونس | ٹوگو | ترکمانستان | یوگینڈا | ازبکستان | متحدہ عرب امارات | یمن |