چاند
وکیپیڈیا سے
چاند ہماری زمین کا ایک سیارچہ ہے۔ زمین سے کوئی دو لاکھ چالیس ہزار میل دور ہے۔ اس کا قطر 2163 میل ہے۔ چاند کے متعلق ابتدائی تحقیقات گیلیلو نے 1609ء میں کی۔ اس نے بتایا کہ چاند ہماری زمین کی طرح ایک کرہ ہے۔ اس نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ چاند پر پہاڑ اور آتش فشاں پہاڑوں کے دہانے موجود ہیں۔ اس میں نہ ہوا ہے نہ پانی۔ جن کے نہ ہونے کے باعث چاند پر زندگی کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے۔ یہ بات انسان بردار جہازوں کے ذریعے ثابت ہو چکی ہے۔ دن کے وقت اس میں سخت گرمی ہوتی ہے اور رات سرد ہوتی ہے۔ یہ اختلاف ایک گھنٹے کے اندر واقع ہو جاتا ہے۔
چاند کادن ہمارے پندرہ دنوں کے برابر ہوتا ہے۔ یہ زمین کے گرد 29 یا 30 دن میں اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے۔ قمری اور اسلامی مہینے اسی کے طلوع و غروب سے مرتب ہوتے ہیں۔ چاند ہمیں رات کو صرف تھوڑی روشنی ہی نہیں دیتا بلکہ اس کی کشش سےسمندر میں مدوجرز بھی پیدا ہوتا ہے۔ سائنس دان وہاں سے لائی گئی مٹی سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چاند کی ارضیات زمین کی ارضیات کے مقابلے میں زیادہ سادہ ہے۔ نیز چاند کی پرت تقریباً میل موٹی ہے۔ اور یہ ایک نایاب پتھر اناستھرو سائٹ سے مل کر بنی ہے۔
فہرست |
[ترمیم] ابتداء
چاند کی ہییت کے متعلق مختلف نظریات ہیں، ایک خیال یہ ہے کہ یہ ایک سیارہ تھا جو چلتے چلتے زمین کے قریب بھٹک آیا، اور زمیں کی کشش ثقل نے اسے اپنے مدار میں ڈال لیا۔ یہ نظریہ خاصہ مقبول رہا ہے، مگر سائنسدانوں نے اعتراض کیا ہے کہ ایسا ممکن ہونے کے لیے چاند کو ایک خاص سمتار سے زمین کے قریب ایک خاص راستے (trajectory) پر آنا ضروری ہو گا، جس کا امکان بہت ہی کم ہے۔
موجودہ دور میں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ 4.6 بلین سال پہلے ایک دمدار ستارہ زور دار دھماکے سے زمین سے ٹکرایا، جس سے دمدارستارہ اور زمین کا بہت سا مادہ تبخیر ہو کر زمین سے نکل گیا۔ آہستہ آہستہ یہ مادہ زمین کے مدار میں گردش کرتے ہوئے اکٹھا ہو کر چاند بن گیا۔ پانی اور ایسے عناصر جو آسانی سے اُڑ سکتے تھے نکل گئے، اور باقی عنصر چاند کا حصہ بنے۔ اس نظریہ کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ چاند کی کثافت زمین کی اوپر والی مٹی کی پٹیوں کی کثافت کے تقریباً برابر ہے، اور اس میں لوہا کی مقدار بہت کم ہے۔ کیونکہ دمدارستارے کا آہنی حصہ زمین میں دھنس گیا تھا جو زمین کا آہنی گودا بنا۔ شمارندہ پر Simulation سے اس نظریہ کو تقویت ملی ہے۔ [1]
[ترمیم] چاند کی تسخیر
20 جولائی 1969ء کو نیل آرم سٹرانگ وہ پہلے انسان تھے جس کے قدم چاند پر پڑے۔
چاند کی حقیقت سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ عام نظریہ یہ ہے کہ یہ زمین سے جدا ہوا ہے۔ چاند پر ہوا اور پانی نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہاں سبزہ وغیرہ ہے۔ چاند پر سب سے پہلے اپالو 2 اتارا گیا تھا۔ اس کی سر زمین سے جو نمونے اکھٹے کیے گئے ان کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کی ان میں کثیر مقدار میں لوہا، ٹیٹانیم، کرومیم اور دوسری بھاری دھاتیں پائی جاتی ہیں۔
[ترمیم] چاند پر کالونی
امریکا 2020ء تک چاند کے جنوبی قطب پر ایک کالونی کے قیام کا ارادہ رکھتا ہے ناسا کے مطابق اس کا مقصد نظامِ شمسی کے بارے میں دریافتوں کی غرض سے مزید انسان بردار مشن روانہ کرنا ہے۔ 1972ء کے بعد یہ کسی انسان کو چاند کی سطح پر بھیجنے کا پہلا منصوبہ ہے۔ قومی ہوائی و خلائی انتظامیہ (این اے ایس اے) نے کہا ہے کہ یہ طویل المدتی منصوبہ دنیا کے 14 خلائی اداروں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ (بحوالہ روزنامہ جنگ کراچی بتاریخ 6 دسمبر 2006ء)
[ترمیم] کشش ثقل
اس کی کشش ثقل gravitational force زمین کی نسبت چھ گنا کم ہے۔ چودہ دنوں میں سورج اس پر چمکتا ہے تو اس کا درجہ حرارت 120 ڈگری فارن ہائیٹ پر جا پہنچتا ہے۔
[ترمیم] حوالہ جات
- ^ Trinh Thuan, Chaos and Harmony, Oxford university press, 2001.
زمرہ جات: فلکیات | کائنات | نظام شمسی | اجرام فلکی